حضرت آدم علیہ اسلام اور ابلیس یعنی شیطان کا واقعہ

قرآن پاک میں ابلیس اورحضرت آدم علیہ اسلام کا قصہ بیان کیا گیاہے قرآن پاک میں جو قصّہ اور بیانات واضح کئے گئے ہیں آج ہم ان کے متعلق آپ کو بتائیں گے اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر خلیفہ بنا کر بھیجا پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرے فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا لیکن ایک جن نے سجدہ نہیں کیا جسکا نام ازازیل تھا
اسکا نام ابلیس تھا جو بعد میں شیطان کے نام سے مشہور ہوا جب اللہ تعالی نے اس سے پوچھا کہ کس چیز نے میرا حکم ماننے سے روکا تو اس نے ایک خوبصورت عذر پیش کیا کہ اللہ تعالی نے مجھے بہت ابتر پیدا کیا ہے ابلیس کی پیدائش آگ سے ہوئی جب کہ جس ہستی کے سامنے سجدہ کرنے کا کہا گیا وہ مٹی سے بنا تھا تو ایک طرف تو اسے برتر بنایا گیا اور دوسری طرف اس سے ایک مٹی سے بنے انسان کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا اس لیے خرابی اس کے انکار میں نہیں بلکہ اس کے حکم ہے جس میں بظاہر غلط مطالبہ کیا گیا ہے یہ شیطان کا مقدمہ تھا جو بظاہر بہت زیادہ موعدلال تھا مگر وہ کسی اور کے سامنے نہیں بلکہ اللہ پاک کے سامنے موجود تھا جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے چناچہ اللہ پاک نے اس کے دل کی اصل حالت کو بیان کر دیا کے تو دراصل تکبر کا شکار ہو چکا ہے تکبر میں تجھے اس طرح سے اندھا کیا ہے کہ تو میرے سامنے بغاوت پر تیار ہوگیا ہے اس لیے اب تجھے بارگاہ سے نکالا جاتا ہے شیطان اس موقع پر بھی سرکشی سے باز نہ آیا اس نے اپنی گمراہی کا الزام یہ کہہ کر اللہ تعالی پر ڈالنے کی کوشش کی کہ جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے اسی طرح میں تمہارے بندوں کو گمراہ کرتا رہوں گا اس طرح یہ ثابت ہوجائے گا کہ وہ عزت کے مستحق نہ تھے جو انہیں دی گئی بس تو مجھے قیامت کے روز تک مہلت دے دے اللہ تعالی شیطان سے سخت ناراض تھے اس لئے انہوں نے اسے مہلت دے دی اور خدا کی رحمت جیسی صفت بھی اس کے کام نہ آ سکے اور دوسری طرف حضرت آدم علیہ السلام کو اور ان کی بیوی کو ایک باغ میں بھیجا گیا اور حکم دیا گیا کہ یہاں ایک درخت ہے
اس کے پاس مت جانا اور اس کا پھل مت کھانا اور انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ ابلیس ان کا دشمن ہے لہذا آپ اس کے دھوکے میں نہ آئیں حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا نے کچھ عرصہ تو اللہ پاک کے حکم کی پابند رھے لیکن بعد میں شیطان نے وس وسے ڈالنا شروع کیے اس نے ان دونوں کو قسم کھا کر یہ یقین دلایا کہ وہ اگر اس درخت کا پھل کھا لیں تو انہیں ہر طرف سے فائدہ ہوگا وہ دونوں اس کی باتوں میں آ گئے اور اس درخت کا پھل کھا بیٹھے لیکن اس کے بعد وو اللہ پاک کے عطا کردہ نعمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس طرح سے شیطان بظاہر اپنے چیلنج میں کامیاب ہوگیا کہ وہ یہ ثابت کر کے رہے گا کہ آدم اس مقام کے مستحق نہیں ہیں جو انہیں دیا گیا ہے مگر آدم اور حوا کا کیس شیطان والا نہیں تھا اس کا انہوں نے ثبوت اس طرح سے دیا کہ جب انہیں معلوم ہوگیا کہ انہوں نے اللہ تعالی کے حکم پر قائم نہیں رہ سکے دونوں رب کی بارگاہ میں معافی کے خواستگار ہو گئے اللہ پاک نے ان سے پوچھا کیا میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا یہ دوسرا موقع تھا جب شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام سے مختلف ہونے کا دوسرا ثبوت پیش کیا انہوں نے اپنے عمل میں شیطان کی طرح کوئی تاویل کرنے کی کوئی کوشش بالکل نہ کی حالانکہ وہ یہ کہتے تھے کہ میں شیطان نے دھوکا دیا ہے مگر انہوں نے کوئی عذر پیش نہ کیا یکطرفہ طور پر انہوں نے غلطی اپنی مان کر معافی مانگ لی اور اللہ پاک نے انہیں معاف کر دیا آج بھی ابن آدم اور ابن شیطان میں ایک ہی بنیادی فرق ہوتا ہے آدم کے بیٹے کے اطراف کی نفسیات میں جیتے ہیں جبکہ جب کہ شیطان کے پیروکار عذر میں پہلو سے جب کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو وہ فوراً اپنی غلطی مان کر معافی مانگ لیتے ہیں-اس سب کے بعد اللّه پاک نے حضرت آدم اور اما حوا کو دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے بھیج دیا اور کہا کے شیطان اور آدم تم ایک دوسرے کے کھلے دشمن ہو تو حق کی رہ پر چلنا اور اپنی اولاد کو بھی اسکی تاقید کرنا بیشک تمہارا رب سب دلوں کے حال جانتا ہے
اس طرح پھر دنیا میں زندگی کہ آغاز ہوا اور وہ آج تک چل رہا ہے اور قیامت انے تک چلتا رہے گا لہٰذا ہم سب کو اللّه پاک سے اپنے گناہو کی مافی مانگی چاہیے اور دین کے راستے پر چلنا چاہیے بیشک دین کہ راستہ ہی حق اور سچ کہ راستہ ہے ۔ اگر آپکو یہ واقعہ اچھا لگا ہو تو اسکو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں