اک سحر انگیز و دل نشین آواز

خوبصورت آواز اللہ تعالی کی ایک بہترین نعمت ہے،آج بھی جب ہم کوئی خوبصورت آواز سنتے ہیں تو متاثر ہوۓ بغیر نہیں رہ سکتے کیونکہ یہ انسانی فطرت کا تقاضہ ہے، ایسی ہی ایک دلکش آواز عہدِ نبویﷺ میں بھی تھی۔
جس کی تعریف خود اللہ عزوجل کے محبوب ﷺ نے کی، اور جس کی تعریف نبی کریمﷺ خود کردیں تو اُس سے خوش قسمت اس دنیا میں کوئی نہیں۔۔۔۔۔!
ایک دن رسولِ کریمﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کے ساتھ ایک گھر کے سامنے سے گزرے تو کوئی شخص بہت خوش الحانی اور دل سوز آواز کے ساتھ قرآنِ پاک کی تلاوت کر رہا تھا تو رسولِ کریم ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھہ کیساتھ کچھ دیر ٹھہر کر تلاوتِ قرآن کو سنا۔
اگلے روز جب وہ صحابی بارگاہِ رسالتﷺ میں تشریف لاۓ تو رسولِ کریمﷺ نے گزشتہ رات کا واقعہ بتایا تو وہ صحابیِ رسول عرض گزار ہوۓ: یارسول اللہﷺ! اگر مجھے آپ کی موجودگی کا علم ہوتا تو میں اور بھی بہتر آواز سے تلاوت کرتا۔
یہ صحابیِ رسول جو اپنی دلکش آواز سے رسولِ کریمﷺ کی توجہ پانے میں کامیاب ہوۓ ان کا نام حضرت عبداللہ بن قیس ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ ہے۔
رسولِ کریمﷺ نے ابو موسیٰ اشعری کے متعلق ارشاد فرمایا:
ابو موسیٰ کو آلِ داؤد کی خوش آوازی میں سے حصہ دیا گیا ہے۔(مسلم،حدیث:1852)
حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اکثر و اوقات آپ سے فرماٸش کیا کرتے کہ ہمیں ہمارے رب عزوجل کا پاک کلام سناؤ۔
اسی طرح حضرتِ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی امورِ سلطنت سے فارغ ہو کر سیدھا حضرتِ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تشریف لا کر تلاوتِ قرآن سنا کرتے تھے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار اُن صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین میں ہوتا ہے جو زمانہ نبویﷺ میں ہی لوگوں کو دینی مسائل بتایا کرتے تھے، اسی وجہ سے رسول اللہﷺ نے آپ کی بردباری اور علمی پختگی کو دیکھتے ہوۓ آپ کو یمن کے ایک حصے پر عامل مقرر کیا۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ بصرہ میں روزانہ علمی و نورانی محفل سجایا کرتے تھے ہر صبح نمازِ فجر کے بعد لوگوں کو اپنی جگہ ٹھہرنے کا حکم فرماتے پھر صفوں کو نٸے سرے سے ترتیب دے کر ایک ایک شخص کو قرآن پڑھاتے اور آگے بڑھ جاتے۔
ایک مرتبہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے تقریبا 300 حفاظِ کرام کو جمع کیا اور فرمایا:
”بے شک! یہ قرآن تمہارے لیے اجر و ثواب کا ذریعہ ہے لیکن یہ تم پر بوجھ بھی بن سکتا ہے، اس لۓ تم قرآن کی اِتباع کرو، اسے اپنا تابع نہ بناؤ کیونکہ جو قرآن کی اِتباع کرتا ہے قرآن اسے جنت کے باغات میں پہنچا دیتا ہے اور جو قرآن کو اپنا تابع بناتا ہے قرآن اسے گُدی کے بل جہنم میں دھکیل دیتا ہے۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں آپ کو بصرہ کا گورنر بنایا پھر حضرتِ عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں کچھ عرصہ آپ کا یہ عہدہ برقرار رکھا اور بعد میں آپ کو کوفہ کا گورنر مقرر کر دیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد آپ نے انتظامی معاملات سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار فرما لی اور ملکِ شام تشریف لے گئے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی 63 سالہ زندگی میں کئی جگہ گورنری اور دیگر عہدوں پر فائز رہے لیکن اس پورے عرصے میں آپ نے اپنے لیے نہ کوئی جائیداد بنائی اور نہ مال جمع کیا نہایت سادگی سے پوری زندگی گزار دی، اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے ہم لگا سکتے ہیں کہ جب آپ کو بصرہ کا گورنر بنایا گیا تو شہر میں داخل ہوتے وقت سیاہی مائل سفید اونٹ پر سوار تھے اور 10 سال سے زیادہ عرصہ اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد 29 ہجری میں بصرہ سے روانہ ہوتے وقت بھی اُسی اونٹ پر سوار تھے۔
تاریخ ابنِ عساکر کے مطابق 44 ہجری ماہِ ذی الحجۃالحرام میں علم وعرفاں کا یہ چمکتا ستارہ اپنی روشنی کو سمیٹتے ہوۓ دنیا سے اوجھل ہوگیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ عزوجل کی ان پر کروڑہا کروڑ رحمتیں نازل ہوں اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین