ماہ صفر کے متعلق توہم پرستی و خدشات

نامہ نگار: ڈائرکٹر جنرل 9نیوز
اسلامی سال کا دوسرا مہینہ صفر ہے جو صفر بالکسر سے ماخوذ ہے، جس کا معنیٰ ”خالی“ ہے۔ کیونکہ یہ مہینہ محرم کے بعد آتا ہے اور محرم الحرام حرمت والے مہینوں سے ہے جس میں زمانہ اسلام سے قبل جنگ حرام تھی، مگر جب صفر کا مہینہ آتا تو اہلِ عرب جنگ کے لیے چلے جاتے اور گھروں کو خالی چھوڑ جاتے تھے ، اس لٸے اس ماہ کو صفر کہتے ہیں۔
ماہِ صفرُ المظفر کو عوام کی اکثریت منحوس تصور کرتی ہے جس کے باعث اس ماہ میں شادی نہیں کی جاتی، لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے، کوئی بھی نیا کام شروع نہیں کیا جاتا، سفر کرنے سے گریز کیا جاتا ہے اور بھی اس قسم کے بہت سے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں، خصوصاً ماہِ صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ منحوس مانی جاتی ہیں جن کو تیرہ تیزی کہتے ہیں، یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔
محترم قارئین کرام!
یاد رہے کہ!
اسلام میں کسی شخص ، جگہ، چیز یا وقت کو منحوس جاننے کا کوئی تصور نہیں ہے یہ محض وَہمی خیالات ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔
رسولِ کریمﷺ کا فرمان:
لَا عَدوٰی وَلا طِیَرَةَ وَلَا ھَامَةَ وَلَا وَلَا صَفَرَ.(مسلم)
یعنی مرض کا متعدی ہونا نہیں اور نہ بدفالی ہے اور نہ ہامہ ہے نہ صفر۔
تشریح حدیث:
لَا عَدوٰی:
سے مراد یہ ہے کہ ایک بیماری دوسرے کو نہیں لگتی۔ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا اعتقاد تھا کہ جو شخص بیمار کے ساتھ بیٹھتا یا کھاتا پیتا ہے تو اس کی بیماری اس کو بھی لگ جاتی ہے۔(بعض بیماریاں ایسی ہیں جن سے بچنا ضروری ہے جیسے موجودہ زمانہ میں کرونا وائرس وغیرہ، حدیث میں جو ذکر کیا گیا ہے اس سے مردا یہ ہے کہ ہر بیماری متعدی نہیں ہوتی) جیسا کہ اہلِ عرب سمجھتے تھے رسولِ کریمﷺ نے اس جاہلانہ عقیدہ کو باطل قرار دیا ہے۔
وَلَا طِیَرَةَ :
اہلِ عرب کی عادت تھی کہ شگون لیتے تھے، جب بھی کسی کام کا قصد کرتے یا کسی جگہ جاتے تو پرندہ یا ہرن کو چھچھکارتے، اگر وہ دائیں طرف بھاگتا تو اسے مبارک جانتے اور نیک فال لیتے اور اس کام کے لیے نکلتے اور اگر بائیں طرف بھاگتا تو اسے نحس اور نا امید جانتے اور کام سے باز رہتے۔ تو رسولِ کریمﷺ نے فرمایا لَا طِیَرَةَ یعنی برا شگون لینے سے نہ تو کوئی فائدہ ہے اور نہ اس کے رد کرنے سے کوئی نقصان کا اندیشہ لہذا اسلام نے اس عقیدہ کو باطل قرار دیا۔
وَلَا ھَامَّةَ :
ہامہ کے معنی سَر کے ہیں، اور یہاں مراد ایک جانور کا نام ہے۔ اہلِ عرب کا زعمِ باطل تھا کہ یہ جانور میت کی ہڈیوں سے پیدا ہوتا ہے جو اڑتا ہے،کچھ یہ کہتے کہ مقتول کے سر سے ایک جانور باہر نکلتا ہے جس کا نام ہامہ ہے اور وہ ہمیشہ فریاد کرتا ہے کہ مجھ کو پانی دو، یہاں تک کہ مقتول کو قتل کرنے والا قاتل مارا جاتا۔
بعض نے کہا ہامہ اُلو کو کہتے ہیں، جس وقت کسی گھر پر آکر بیٹھتا ہے اور بولت ہے تو اس سے مراد یہ لیتے کہ یہ گھر ویران ہوجاۓ گا یا کوئی مرجاۓ گا، اس کو منحوس مانا جاتا تو رسولِ کریمﷺ نے اس عقیدے کو بھی باطل فرمایا۔
وَلَا صَفَرَ :
مراد اس سے صفر کا مہینہ جس کو لوگ بلاؤں کے نازل ہونے، حادثات اور آفات کا مہینہ جانتے ہیں۔ لَا صَفَرَ فرما کر رسول اللہﷺ نے اس باطل عقیدہ کا رد فرما دیا۔
رسولُ اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلعِیَافَةُ وَ الطِّیَرَةُ وَالطَّرقُ مِنَ الجِبتِ۔
یعنی اچھا یا برا شگون لینے کے لئے پرندہ اڑانا،بد شگونی لینا اور طَرق(یعنی کنکر پھینک کر یا ریت میں لکیر کھینچ کر فال نکالنا) شیطانی کاموں میں سے ہے۔ (ابوداؤد، حدیث :3907)
یاد رہے کہ!
* بد شگونی کا شکار ہونے والوں کا اللہﷻ پر اعتماد اور توکل کمزور ہوجاتا ہے۔
* شیطانی وسوسوں کا دروازہ کھلتا ہے۔
* بدفالی سے آدمی کے اندر توہم پرستی، بزدلی، ڈر، پست ہمتی اور تنگ دلی پیدا ہوجاتی ہے۔
* بدشگونی کی وجہ سے آپس کی ناچاقیاں جنم لیتی ہیں جن کے سبب رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔
* جو لوگ اپنے اوپر بدفالی کا دروازہ کھول لیتے ہیں پھر انہیں ہر چیز منحوس نظر آنے لگتی ہے۔
محترم قارئین کرام!
کوئی بھی مہینہ، دن ، جگہ منحوس نہیں ہے کیونکہ یہ سب اللہﷻ کا بنایا ہوا نظام ہے۔ لہذا ہمیں ان توہمات اور باطل عقیدے سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ نحوست اگر ہے تو وہ ہمارے گناہوں اور برے اعمال کی ہے جس سے توبہ کرکے اللہﷻ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہﷻ ہمیں ماہِ صفرُ المظفر کی برکتیں عطا فرماۓ اور اس ماہ سے متعلق توہمات سے بچنے کی توفیق عطا فرماۓ۔
آمین