تاریخ اسلام کے ایک عظیم جج کے عادلانہ فیصلے
تحریر: طاہر علی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک شخص سے گھوڑ اخریدا۔ گھوڑ اخریدتے وقت یہ شرط لگائی کہ میں دوڑ میں گھوڑے کا امتحان لوں گا ۔ گھوڑ امتحان میں پورا اترا، تو رکھوں گا۔ انھوں نے امتحان کے لیے گھوڑا ایک سوار کو دیا۔ سوار نے جب گھوڑے کو دوڑایا۔ تو وہ گرگیا اور چوٹ کھا کر لنگڑا ہو گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے واپس کر نا چاہا لیکن بیچنے والے نے واپس لینے سے انکار کردیا۔ اس پر
جھگڑا ہوگیا۔ فیصلے کے لیے دونوں ایک عالم کے پاس گئے ۔ عالم نے دونوں کی بات سنی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا: ’’اے امیرالمومنین! جب آپ نے گھوڑا خریدا تھا، تو کیا اس وقت صیح حالت میں تھا؟‘حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: جی ہاں، درست حالت میں تھا۔ عالم نے کہا: ‘اگر یہ بات ہے تو گھوڑا آپ کو لینا پڑے گا یا پھر آپ نے گھوڑ اجس حالت میں لیا تھا اسی حالت میں لوٹادیں۔ یہ فیصلہ
امیرالمومنین کے خلاف تھا ، لیکن اس کو سن کر وہ اتنے خوش ہوۓ کہ عالم کو کوفہ کا قاضی مقرر کر دیا۔کوفہ کے قاضی مقرر ہونے کے بعد انھوں
نے فرائض اتنی قابلیت اور دیانت داری سے انجام دیے کہ بعد میں آنے والے حکمرانوں نے بھی ان کواس عہدے پر قائم رکھا۔آپ کومعلوم
ہے یہ عالم کون تھے؟ جی ہاں ،تاریخ اسلام کے مشہور قاضی جن کا نام شریح بن حارث رحمۃ اللہ علیہ تھا۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب حضرت علی رضی اللہ عن مسلمانوں کے خلیفہ تھے ۔ ایک دفعہ ان کی زرہ کہیں گر گئی۔ اسے ایک یہودی
نے اٹھالیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو معلوم ہوا تو انھوں
نے اپنی زرہ یہودی سے مانگی لیکن یہودی نے دینے سے انکار
کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ چاہتے ، تو وہ زرہ زبردستی لے
سکتے تھے، لیکن جس طرح وقت کے بڑے حکمران تھے ، اسی طرح
وہ سب سے زیادہ اللہ تعالی سے ڈرنے والے تھے ۔ان کو یہ بات
پسند نہیں تھی کہ کسی پر زبردستی کر یں ۔ اس لیے انھوں نے قاضی شریح
رحمۃ اللہ علیہ کی عدالت میں دعوی دائر کر دیا۔ قاضی شریح رحمتہ اللہ علیہ
نے یہودی کو بلا یا جب وہ عدالت میں حاضر ہوا ، تو اس سے کہا: علی رضی اللہ تعالی عنہ
کہتے ہیں کہ یہ زرہ جو تمھارے پاس ہے، ان کی ہے۔
یہودی نے کہا نہیں ، یہ میری ہے ۔ قاضی شریح رحمۃ اللہ علیہ نے پو چھا: آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟
یہودی نے کہا: زرہ میرے قبضے میں ہے۔
قاضی شریح رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا: امیر المؤمنین آپ کو اپنی ملکیت ثابت کرنے
کے لیے دو گواہ پیش کرنا ہوں گے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ہاں ! میراغلام قہر اور میرا بیٹا حسن رضی اللہ تعالی عنہ میرے حق میں گواہی دیں گے۔
قاضی شریح رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: غلام کی گواہی آ قا کے حق میں اور بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قابل قبول نہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشادفرمایا: ایک جنتی آدمی کی شہادت قبول نہیں. کیا آپ نے رسول اقدس ﷺ کا فرمان
نہیں سنا:’حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں ۔‘‘
قاضی شریح رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: امیرالمؤمنین یہ درست ہے لیکن میں باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کو جائز نہیں سمجھتا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں یہ فیصلہ تسلیم کر تا ہوں اور اپنا دعوی واپس لیتا ہوں ۔زرہ اس یہودی کے پاس ہی رہے ۔
صورت حال دیکھ کر یہودی نے کہا: قاضی صاحب ! سچ بات یہ ہے کہ یہ زرہ حقیقتاً حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ہے۔ پھر وہ
تعجب سے کہنے لگا : اے خدا! اسلام میں انصاف کا معیار کتنا بلند ہے، آج امیر المؤمنین اپنے ماتحت قاضی سے فیصلہ کرانے کے لیے پیش ہوۓ اور
قاضی نے سماعت کے بعد فیصلہ امیرالمؤمنین کے خلاف میرے حق میں دے ، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ دین جو عدل کرنے کا حکم
دیتا ہے وہ برحق ہے اور میں آج اس سے متاثر ہوکر عدالت کے سامنے سچے دل سے اقرار کرتا ہوں ۔ اس کے بعد اس نے کلمہ پڑھا اور مسلمان
ہوگیا۔
پھر اس نے عدالت میں اپنا بیان جاری رکھتے ہوۓ کہا: جناب قاضی صاحب! میں صدق دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ یہ زرہ
امیر مؤمنین کی ہے، میں ایک رات اس لشکر کے پیچھے پیچھے جار ہا تھا، جوصفین کی طرف جار ہا تھا۔ یہ زرہ ان کے خاکی رنگ کے اونٹ سے گری
تھی جسے میں نے اٹھالیاتھا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کا یہ بیان سن کر ارشاد فرمایا: چوں کہ اب توں مسلمان ہو گیا ہے لہذا یہ زرہ میں نے تجھے بطور تحفہ دی اور اس کے ساتھ یہ عمدہ گھوڑی بھی تمہیں بطور تحفہ پیش کرتا ہوں۔
قاضی شریح رحمۃ اللہ علیہ تقریبا ۲۰ برس تک قاضی رہے ۔ وہ اللہ تعالی سے ڈرنے والے جج تھے۔ انصاف کے معاملے میں نہ وہ
کسی کی سفارش مانتے تھے اور نہ کسی بڑے آدمی کی پروا کر تے تھے۔
اللہﷻ کی ان پر کروڑ ہا کروڑ رحمتیں نازل ہوں اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔
آمین