241

اللہ اور بندے کا تعلق

بندہ اور رب کا تعلق۔

کنزہ صدیق: رپورٹر/نامہ نگار

ہم ساری زندگی دنیا کی خواری میں گزار دیتے ہیں ہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم دنیا میں کس امتحان کے لیے بھیجے گئے ہیں ہم کبھی اپنے رب سے بہترین تعلق قائم کرنے کی فکر میں نہیں رہتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کی ہی فکر دنیا کی جستجو دنیا کی لگن ہی سب کچھ ہے
ہم روز صبح سو کر اٹھتے ہیں ہمیں معاش کی فکر رہتی ہے سارا دن روزی روٹی کی تلاش میں بھٹک بھٹک کر شام کو گھر لوٹ آتے ہیں جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ربِ کریم نے تو ہمارا رزق پہلے ہی لکھ دیا ہے لیکن اس زرق کو پانے کے طریقہ ہم بھول بیٹھے ہیں۔
جبکہ انسان جس بھی کام کو اہم سمجھے اور کرنا چاہے اس کا راستہ بننا شروع ہوجاتا ہے۔‘‘ سب سے پہلے تو اس بات کی اہمیت کو سامنے رکھ لیجئے کہ بغیر خدا تعالیٰ کی مدد اور رہنمائی کے کوئی بڑا کام ممکن نہیں۔
(اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں بیٹھ جائے)
اب بات کرتے ہیں کہ آخر وہ کونسی باتیں ہیں جن سے ہم اپنے رب کا قرب حاصل کر سکتے ہیں ۔اللہ پاک نے ہمیشہ اپنے اس بندے پہ نظرِ کرم کی ہے جو رب کے بندوں سے حسنِ سلوک کرتا ہے جو حقوق العباد کا خیال رکھتا ہے اللہ پاک کا فرمان ہے جسکا مفہوم یہ ہے کہ میں چاہوں تو حقوق اللہ معاف کر سکتا ہوں لیکن بندوں پہ بندے کا حق اس وقت تک معاف نہیں کرونگا جب تک کہ وہ بندہ خود معاف نہ کر دے۔

روحانیت دراصل بندہ اور رب کے تعلق کا نام ہے روحانیت کی سب سے پہلی سیڑھی آپ اس وقت چڑھتے ہیں جب آپ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں آپ کا ہاتھ اٹھنا کامل یقین کے ساتھ، آپکی آنکھوں کا جھلکنا، اورپھر یہ یقین ہونا کہ اس در سے خالی ہاتھ نہیں لوٹایا جائیگا جب یہ یقین آپکے دل میں آجائیگا تو رب سے تعلق مضبوط ہوتا جائیگا۔ اپنے رب سے باتیں کریں ضمیر کو یہ احساس دلاتے رہیں کہ اللہ پاک ہمیشہ ساتھ ہے وہ سن رہا یے وہ دیکھ رہا یے۔
اپنے رب سے تعلق کے لیے حقوق العباد کا خیال رکھنا سیکھیں
لوگوں کی غلطیاں معاف کرنا سیکھیں
حدیث شریف ہے کہ ’’جو معاف کرتا ہے خدا اسکو معاف کردیتا ہے۔‘‘ رب تعالیٰ کو معاف کرنے والے بہت پسند ہیں۔
دوسروں کو اللہ کے لیے معاف کریں اللہ آپکی غلطیوں کو معاف فرمائے گا۔ اللہ کے لیے ہی محبت کریں۔
رنگ محل بازار میں ایک بابا جی رہتے تھے پیشے کے اعتبار سے وہ موچی تھے۔ ان کا نام بابا فیروز تھا وہ صاحب دعا تھے۔ دوسروں کے لیے دعا کرتے تھے اور اللہ کریم ان کی دعا سنتا بھی تھا۔ ان کے درویش اور ولی اللہ ہونے پر بہت سے لوگوں کا یقین تھا۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ باباجی اللہ سے دوستی کیسے ہوئی؟ کہاں موچی اور کہاں اللہ کا ولی؟ بابا جی نے جواب بہت خوبصورت دیا فرمانے لگے ’’میں نے پوری زندگی میں جسکی جوتی مرمت کی ہے اس نیت سے مرمت کی ہے کہ یہ میرے اللہ کا بندہ ہے اور یہ میرے رسولﷺؐ کا امتی ہے۔‘‘
بندے کا اخلاق آدھا دین یے۔ ہم اپنے اخلاق بہتر بنالیں تو ہمارے آدھے کام سدھر جائیں گے دو میٹھے بول کسی جادوئی طاقت سے کم نہیں ہوتے آپ کسی سے محبت سے پیار سے بات کرکے دیکھیں آپکا سارا دن خوشگوار گزرے گا کسی کے بناء مفاد کام آکر دیکھیں آپ کے اندر پوزیٹو انرجی پیدا ہوگی۔ اور سب سے بڑی بات کہ کسی کے کام آنے سے اس کے دل سے نکلنے والی دعا سیدھا عرش پہ پہنچتی ہے۔
خدا کا قرب حاصل کرنے کا ایک عمل سخاوت بھی ہے اللہ پاک کو سخی انسان بہت پسند ہے جبکہ بخیل کواللہ پاک سخت ناپسند فرماتا ہے اللہ کی راہ میں مال خرچ کریں یتیموں اور مسکینوں کے سر پہ ہاتھ رکھیں۔
ایک یتیم پہ سر پہ شفقت بھرا ہاتھ پھیرنے سے اس کے سر ہہ جتنے بھی بال ہیں اتنا ثواب ملے گا۔ سخاوت آپکے کام اور آپکے مال میں برکت ڈالتی ہے سخاوت صرف مال خرچ کرنے کا ہی نام نہیں یے دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والا اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شامل کرنے والا بھی سخی کہلاتا ہے۔
اللہ پاک ہم سب سے راضی ہو آمین۔
(کنزہ صدیق)
https://twitter.com/KinzaSiddiq?s=08

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں