حافظ شاھد محمود کامونکی گوجرانولہ
دنیا کی عمر، چاہے ہزاروں سال کیوں نہ ہو، پھر بھی آخرت کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔جیسا کہ انگلی پہ لگے ہوئے پانی کی عمر سمندر کے پانی کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی ہے۔
جس طرح انگلی کو لگا ہوا پانی بہت جلد خشک ہوجاتا ہے اسی طرح دنیا بھی بہت جلد ختم ہونے والی ہے۔اور جس طرح سمندر کا پانی باقی ہے اور ختم ہونے والا نہیں اسی طرح آخرت کی نعمتیں باقی رہیں گی اور ختم نہیں ہونگی
آخرت دنیا کے مقابلے میں بہت زیادہ اور اُس سے کہیں بہتر ہے۔اتنی زیادہ اور اتنی بہتر ہے کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔اور اِس بات کا اندازہ اِس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آخرت میں اہل ایمان کو جو جنت نصیب ہوگی اس کی صرف چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو صبر کرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔
مومن کو صابر اور متحمل مزاج ہونا چاہئے ۔ اسے پریشانیوں اور آزمائشوں میں بے صبری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے مکمل طور پر برداشت سے کام لینا چاہئے اور اس سلسلے میں اسے انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیوں کو سامنے رکھنا چاہئے جو مصائب وآلام میں صبر وتحمل کے پہاڑ بنے رہتے تھے حالانکہ ان پاکباز حضرات پر آزمائشیں بھی سب سے بڑی آتی تھیں، اس کے باوجود وہ صبر کا مظاہرہ بھی سب سے زیادہ کرتے تھے جیسے سیدنا حضرت ایوب علیہ السلام۔
اِس کڑے امتحان میں جب سیدنا حضرت ایوب علیہ السلام پوری طرح کامیاب ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نوازشوں کی بارش کردی ۔ انھیں حکم ہوا کہ زمین پر پاؤں مارو، بس پاؤں مارنے کی دیر تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک چشمہ رواں کردیا ، آپ اس کے شفا بخش پانی میں غسل کرتے اور اسے پیتے رہتے ۔ جسمانی بیماری جاتی رہی اور جو آل واولاد اِس ابتلاء سے پہلے تھی اللہ تعالیٰ نے اس سے دوگنی عطا فرمادی
جب حضرت ایوب علیہ السلام ننگے بدن نہا رہے تھے توآپ پر سونے کی ٹڈیوں کی بارش ہونے لگی ، آپ انھیں اپنے کپڑے میں اکٹھا کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں پکارا : ایوب ! کیا میں نے تمھیں ان ٹڈیوں سے بے نیاز نہیں کردیا ؟ تو انھوں نے کہا : اللہ ! تیری عزت کی قسم ، یہ تو ٹھیک ہے لیکن میں تیری رحمت سے تو بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ ‘‘
یہ یقینی طور پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حضرت ایوب علیہ السلام کے بے مثال صبر وتحمل کا پھل تھا۔