439

اسلاموفوبیا اور ہماری ذمہ داری

عقیلہ رضا: نامہ نگار / ڈپٹی بیورو چیف اسلام آباد

اسلامو فوبیا اور ہماری ذمہ داری:
دینِ اسلام اپنے ماننے والوں کو امن اور محبت کا درس دیتا ہے،مکہ سے رسول اللہﷺ کی سربراہی میں چند لوگوں کی جماعت سے اسلام کا پیغام پھیلنا شروع ہوا تو یہ چند لوگوں سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گیا اور آج دنیا کے ہر ملک میں اسلام کے ماننے والے موجود ہیں،اسلام جس تیزی سے پھیل رہا ہے وہیں غیر مسلم طاقتیں اس سے پریشان ہیں جس کے باعث آۓ دن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپگینڈا کیا جاتا ہے۔
9/11 کے بعد پورے یورپ میں شدّت سے یہ تاثر پھیلایا گیا کہ مسلمان دہشتگرد ہیں اور اسلام ایک شدّت پسند مذہب ہے۔ پورا یورپ اسلامو فوبیا کا شکار ہوا جس کے باعث ہر تھوڑے عرصے بعد مسلمانو کی دل آزاری کے واقعات مسلسل ہونا شروع ہوگۓ جس میں گستاخانہ خاکوں سے لے کر پچھلے دنوں ناروے میں قرآنِ پاک والا سانحہ شامل ہے، بات صرف یہی تک نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو زودو کوب کے واقعات بھی اس میں شامل ہیں، جیسا کے کچھ دن پہلے سڈنی میں باحجاب مسلمان خاتون کو ریستوران میں ایک شخص نے مارا صرف حجاب کے جرم میں،اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جو یورپ میں بڑھتے ہوۓ اسلامو فوبیا کو واضح کرتے ہیں۔
ناروے میں ہونے والے سانحہ میں ایک شامی مسلمان کا اہم کردار ہے جو کہ یقیناً قابلِ تحسین ہے کوئی بھی مسلمان اپنے سامنے اس طرح کی گستاخی ہوتے نہیں دیکھ سکتا،اسلام یقیناً امن کا درس دیتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی بھی غیر مسلم انتہاء پسند گستاخانہ عمل کرے، یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے سانحات پر مسلمانوں کا ردِعمل آتا ہے جو کہ فطری عمل ہے۔
عمر الیاس نے اپنے فعل سے اپنے ایمان اور محبت کا عملی ثبوت دیا،جس پر جنرل آصف غفور نے اپنی ٹوئیٹ میں اس بہادر کو سلام کیا۔ آج یہ شامی نوجوان تمام مسلمانوں کا ہیرو ہے،جس نے اپنے عمل سے ایک پیغام دیا کہ مسلمان ایسی کوئی بھی گستاخی براداشت نہیں کریں گے لہذا اقوامِ عالم کو اس پر سوچنا چاہیے اور اس طرح کے سانحات کو روکنے کے لیے واضح قوانین بناۓ جائیں۔
اسلامو فوبیا پر مبنی یہ واقعات صرف نفرت اور انتہاء پسندی کو ہی فروغ دے سکتے ہیں،یہ انتہاء پسند اس طرح کے افعال کر کہ سمجھتے ہیں کہ شاید وہ لوگوں کو اسلام کی طرف راغب ہونے سے روک سکیں گے لیکن حیرت انگیز طور پر جب بھی کوئی ایسا گستاخانہ عمل ہوتا ہے تو غیر مسلم کی کثیر تعداد دائرہ اسلام میں داخل ہوتی ہے۔
اب آتے ہیں اس طرف کہ اس طرح کے واقعات جو تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں جو کہ آئندہ بھی ہوں گے ان سے کیسے نمٹا جاۓ اور ان کو روکا کیسے جاۓ بحیثیت مسلمان ان واقعات پر ہماری کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
بحیثیت مسلمان ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کا پیغامِ محبت عام کریں،زبان سے ہی نہیں بلکہ عمل سے کیونکہ آپ کا عمل ہی آپ کے ایمان کی گواہی دے گا،آج اکثریت ہماری بہت اچھا بول اور لکھ لیتی ہے اسلام پر مگر عمل سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا،مسلمان وہ ہے جس کا عمل بولے نہ کہ زبان،
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو۔
آج ہماری زبان اور ہاتھ سے تو اپنے مسلمان ہی محفوظ نہیں ہیں تو ہم اپنے دین پر ہونے والے ان حملوں کو کیسے روک سکتے ہیں،اگر ہم کسی کو فائدہ نہیں دے سکتے تو اپنی ذات سے کسی کو نقصان بھی نہ پہنچائیں۔
جب بھی کوئی اس طرح کا واقعہ ہوتا ہے تو سوشل میڈیا پر کئی ہفتوں تک اس پر بات ہوتی ہے،ڈی پی لگائی جاتی ہے، ٹرینڈ کیے جاتے ہیں اور پھر ایک طویل خاموشی اس وقت تک کے لیے جب تک دوبارہ اس طرح کا کوئی واقعہ نہ ہوجاۓ،کیا سوشل میڈیا پر چند دن آواز اٹھا کر ہماری ذمہ داری پوری ہو جاتی ہے؟نہیں ہمیں اسلامو فوبیا پر وقتاً فوقتاً آواز اٹھانا ہو گی اور بھرپور طریقے سے آواز اٹھانا ہوگی،بار بار اسلام کا پیغام عام کرنا ہوگا۔
یہاں میں وزیراعظم عمران خان کو سلام پیش کرتی ہوں جو مسلم دنیا کے واحد لیڈر ہیں جنہوں نے اقوامِ متحدہ میں اسلامو فوبیا پر کھل کر بات کی اور اسلام کا ایک بہترین پیغام دیا،اقوامِ عالم پر واضح کیا کہ “اسلام صرف ایک ہے اور وہ ہے محمدﷺ کا اسلام جن کی ہم پیروی کرتے ہیں،اس کے علاوہ اور کوئی اسلام نہیں ہے،
وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی واضح کیا کہ اس طرح کے واقعات سے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی ہے”۔
ایک بہترین پیغام اور تنبیہ تھی وزیراعظم کی ان کے لیے جو اسلامو فوبیا کا شکار ہیں۔
ان واقعات پر جس طرح ہم اپنی ڈی پی بدلتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہمیں اپنی طرزِ زندگی بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ ڈی پی بدلنے سے اتنا فرق نہیں پڑے گا جتنا اپنے آپ کو بدلنے سے پڑے گا۔جب تک ہم عملی طور پر پختہ نہیں ہوجاتے اس وقت تک ہمارا بولنا بے کار ہے۔
ناروے میں جو سانحہ ہوا اس سے یقیناً مسلمانوں کے دل دکھے ہیں ہر شخص نے اپنی اپنی راۓ دی کسی نے بائیکاٹ کا کہا،کسی نے تعلقات ختم کرنے کا مشورہ دیا،کسی نے حکومت کو سخت اقدامات کرنے کا کہا یقیناً ہر شخص کی راۓ قیمتی ہے،لیکن میری راۓ اس میں یہ ہے کہ آئیے اس واقعے کے بعد سے قرآن کو سمجھیں جانیں اور روز اس کی تلاوت کریں اور یہ پیغام دیں کہ قرآن وہ عظیم کتاب ہے جس کا ہر لفظ ہمارے سینے میں موجود ہے۔ ہر مسلمان کے گھر یہ عظيم کتاب موجود ہے لیکن اکثریت اس کو صرف رمضان میں ہی پڑھتی ہے۔ قرآن کی تلاوت کر کے قرآن سے اپنی محبت کا اظہار کریں۔
عملی طور پر ہم جتنے مضبوط ہوں گے اسلامو فوبیا کے شکار انتہاء پسندوں پر اتنے ہی زیادہ بھاری ہوں گے اور وہ دوبارہ اس طرح کی حرکت کرنے سے باز رہیں گے۔حکومت کو برا بھلا کہنے سے کچھ نہیں ہوگا جب تک ہم خود کو نہیں بدلتے،
تو آئیں ان واقعات کو روکنے کے لیے اسلام سے اپنی محبت کے اظہار کو اپنے عمل سے واضح کریں آپ کا عمل سامنے والے کو آپ کی محبت کا یقین دلا دے نہ کہ آپ کو زبان سے بار بار یہ کہنا پڑے کہ مجھے اپنے دین سے محبت ہے،
کیونکہ دعوی محبت زبانی ہو تو اس پر یقین کوئی بھی نہیں کرتا جب تک عمل واضح نہ ہو، محبت کا عملی دعوی ہی آپ کی اسلام سے محبت کا واضح ثبوت ہے۔اپنے عمل سے اسلامو فوبیا کو شکست دیں۔
شور ہے ہوگۓ دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مُسلم موجُود؟
وضع میں تم ہو نصاریٰ،تو تمدن میں ہنُود
یہ مُسلماں ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو،مِرزا بھی ہو،افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو،بتاؤ مسلمان بھی ہو؟
(علامہ اقبال)

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں