140

جُدا ہو دیں سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی

‏جُدا ہو دیں سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی

نامہ نگار: بشارت محمود رانا

‏شاعرِ مشرق، مفّکرِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رح صاحب کے اِس شعر کو سامنے رکھتے ہوئے میں اپنی آج کی اس تحریر کے ذریعے اپنے قارعین کو اپنے ناقص سے علم کی دسترس میں رہتے ہوئے اِن اشعار میں چھپی ایک عظیم حکمت کو آشکار کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔

‏جلالِ پادشاہی ہو، کہ جمہوری تماشا ہو
‏جُدا ہو دین سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی

‏اِس پہلے کہ میں اِس شعر کی تشریع کی طرف بڑھوں، اُس سے پہلے اِن باتوں کا سمجھنا بہت ضروری ہے کہ

‏جب سے اِس دنیا میں حضرتِ انسان کو اللہ تعالی نے وجود بخشا ہے، حضرت آدم (ع) سے ہوتے ہوئے ربِّ ذوالجلال کے مبعوث کئے گئے آخری نبی و رسول جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کی آمد تک صرف ایک ہی نظامِ حکومت چلا آ رہا تھا اور وہ بادشاہت تھی۔ جِس میں عوام الناس و رعایا میں سے کسی کو بھی کوئی حق نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بادشاہ کی مملکت میں صادر کیے گئے کسی ایک فیصلے یا حکم کے خلاف بھی بات کر سکیں۔

‏کیونکہ اُس دور کے بادشاہ اور بادشاہی نظامِ حکومت میں حاکم اِن فکروں سے بالکل آزاد ہوتا ہے کہ کسی بھی معاملے میں عوام الناس کی رائے کو سُننا چاہیے۔ اور یقیناً اس کو ظلمت کا ایک نشان بھی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا (البتہ! تاریخ میں ہمیں چند ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جِن میں بادشاہ انتہائی رحم دل اور اپنے عوام کا درد رکھنے والے بھی تھے، جیساکہ حضرت سلیمان (ع) جو کہ اللہ کے مبعوث کردہ نبی بھی تھے اور جنھوں نے انسانوں سمیت دنیا کی تمام مخلوقات پہ حکومت کی۔ یہاں تک کہ وہ اپنی سلطنت میں موجود ایک چیونٹی کی آواز تک کو بھی سُن لیا کرتے تھے)

‏تو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہمارے پیارے نبی جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی عظیم تعلیمات اور معاشرتی اصول سکھاتے ہوئے اپنے اصحاب رضی اللہ علیھم اجماعین کو ایسے بہترین انسانوں کے طور پر تیار کیا کہ نہ اُس سے پہلے اور نہ اس کے بعد آج تک دنیا میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے۔

‏اور یہ آنحضرت ﷺ کی ہی سکھائی ہوئی تعلیمات تھیں کہ اِس نوعِ انسانی کی تاریخ میں پہلی بار اِن اصحاب رضی اللہ علیھم اجماعین نے دنیا میں خلافتِ راشدہ کا نظام متعارف کروایا، جِس میں ایک خلیفہ کو اپنی عوام کا حاکم نہیں بلکہ اُن کا خادم بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا اور جو کہ ہمارے نبی جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کی ہمیں سکھائی گئیں تعلیمات اور ہمارے دین اسلام کے عین مطابق بھی تھا۔ جس میں ہر شخص چاہے ایک غریب سا دیہاتی ہی کیوں نہ ہو وہ بھی اپنے خلیفہ سے سوال کر سکتا تھا اور خلیفہ بھی اس کا جواب دینے کا پابند تھا۔ تاہم پھر یہ مسلمانوں کی اپنی کمزوریاں بھی تھیں کہ وہ آہستہ آہستہ گراوٹ کا شکار ہوتے چلے گئے۔ بلاشبہ اس میں کفار کی سازشیں بھی موجود تھیں اور ہم مسلمان ان سازشوں کا شکار ہو کر پھر سے آہستہ آہستہ خلافتِ سے بادشاہت کی طرف چلے گئے۔

‏اگر اب اِس دنیا میں موجودہ نظامِ حکومت کو دیکھا جائے جِسے جمہوریت کا نام دیا گیا ہے اور جِسے دنیا میں نافذ العمل پہلے ورلڈ آرڈر کے بعد یہ کہہ کر سب پہ مسلط کر دیا گیا کہ جمہوریت دنیا کا سب سے بہترین نظامِ حکومت ہے اور ہم آج کے دن تک اِسے بھگت رہے ہیں۔
‏تو جیسے میں نے پہلے عرض کیا کہ ہمیں ہمارے دینِ اسلام سے ہی یہ سبق ملتا ہے کہ ہمارا طرزِ حکمرانی کونسا ہونا چاہیے کہ جس میں حکمران، حاکم نہیں بلکہ عوام کا خادم ہو اور عوام کو جوابدہ بھی ہو کہ ہر شخص بلا روک ٹوک اپنے حکمرانوں سے سوال کر سکتا ہو اور حکمران ہھی اپنے عوام کو جواب دینے کا خود کو پابند سمجھتے ہوں ناں کہ خود کو قانون سے بالا تر تصور کریں۔ لیکن ہم بطور عوام بھی اس چیز کو نا جانتے ہوئے اس میں ملوّث اور قصوروار ہیں اور ہم اس نظام سے فائدہ اُٹھانے والی ان طاقتوں کے ہاتھوں کِھلونا بنے ہوئے کھیل رہے ہوتے ہیں۔

‏اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رح صاحب کے اِس شعر میں بھی اسی چیز کا ذکر ہے ( اوپر کی ساری تحریر کا مقصد یہ تھا کہ آپ کو بات اچھے سے سمجھ میں آ سکے) اور علامہ اقبال رح صاحب نے اس شعر میں بادشاہت کو جاہ و جلال کی علامت گردانا ہے کہ جس میں کسی طرح کے سوال کی بھی گنجائش نہیں ہو سکتی جبکہ جمہوریت کو ایک تماشہ کہہ کر پکارہ ہے جس سے آپ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جمہوریت والا نظامِ حکومت ایک تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

‏دوسری بات میرے نزدیک یہ بھی کہ علامہ اقبال رح صاحب کا یہ کہنا ہے کہ طرزِ حکمرانی چاہے کوئی بھی ہو، بادشاہت ہو یا چاہے جمہوریت ہو لیکن اگر ہم سیاست میں سے دین کو الگ کر دیں گے تو صرف راکھ ہی بچے گی۔

‏تو میرے مطابق! اِس شعر میں علامہ اقبال صاحب نے حکمرانی و سیاست میں دین کو اس کا لازمی جُزو قرار دیتے ہوئے ہمیں پیغام دینے کی بھی کوشش کی ہے کہ دین کو سیاست سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور معاشرے کے ہر فرد کو سیاست کا علم ہونا چاہیے اور اس میں انہیں ہر وقت کسی نہ کسی طرح شامل رہنا چاہیے۔

‏مثلاً اگر معاشرے کے وہ افراد جو زیادہ تر اپنا وقت صرف دین کی تعلیم حاصل کرنے اور مسجدوں، مدرسوں تک محدود رہ کر گزارتے ہیں۔ اگر وہ بھی سیاست کو پڑھیں، سمجھیں اور عوام الناس کو بھی شعور دینے میں لگ جائیں تو سوچیں ذرا کہ جب معاشرے کا ہر فرد دین کے ساتھ ساتھ عوامی، مقامی اور بین الاقوامی معاملات کو سمجھنے لگ جائے گا تو ہم کتنا جلدی اپنے ملک میں موجود کفار کے ساتھ ملے ہوئے غداروں اور اُن کی چالوں کو پہچان سکتے ہیں جو آئے روز ہمارے دینی معاملات میں بھی کسی نہ کسی معاملے کو بنیاد بنا کر ہمارے ملک میں فساد برپا کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ تو ہم اِن کو کتنی جلدی سمجھ کر انہیں ناکام بنا سکتے ہیں۔

‏اور آخر میں! میں یہ کہوں گا کہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رح صاحب کی اس بات کو ذہن نشین کرتے ہوئے ہمارے ملک کے ہر ہر فرد کو، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو یا جوان اپنے آپ کو مکمل طور پر سیاسی و دینی معاملات میں اتنا عبور حاصل کر لینا چاہیے کہ ہم فوراً سے پہلے اپنے مذہب اسلام، ملک اور قوم کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو سمجھ سکیں اور دشمنوں کے ہاتھوں کھلونا بننے سے بچ سکیں۔

‏اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں