قانون مقتدرِ اعلیٰ کا حکم ہوتا ہے
تحریر: ایمل (نمائندہ 9 نیوز اسلام آباد)
ایان علی دبئی جانے کے لیے اسلام آباد ائرپورٹ پر پہنچیں جس کا نام اس وقت بےنظیر ائرپورٹ رکھا گیا تھا،
وہ وی آئی پی لاؤنج تک آئیں اور اپنا سامان کاونٹر پر رکھا تو کسٹم حکام نے ان کا بیگ چیک کرنا چاہا ، ایان علی نے لاپروائی سے بیگ کھولا اور اعجاز چوہدری نامی کسٹم انسپکٹر نے بیگ میں پڑا سامان ہٹایا تو نیچے ڈالروں کی گڈیاں پڑی ہوئی تھیں،
انسپکٹر نے ایان علی سے استفسار کیا تو انہوں نے لاپروائی سے کہا کہ یہ میرے ہیں،اعجاز چوہدری نے کہا میڈم مجھے یہ رقم زیادہ لگ رہی ہے، کم و بیش پانچ ہزار ڈالرز سے زیادہ کیش لے جانا غیر قانونی ہے،پھر جب گڈیاں گنی تو وہ 5 لاکھ ڈالرز تھے۔
کسٹم انسپکٹر نے اپنے سنئئر کو مطلع کیا اور ایان علی کو صوفے پر بٹھا دیا،ایان علی کو کوئی پریشانی نہیں تھی ، ان کے لئے یہ روز کا معمول تھا لیکن اعجاز چوہدری کے لئے یہ غیر معمولی بات تھی ، وہ جانتے تھے کہ ایان علی ہفتے میں دو مرتبہ دبئی جاتی ہے
اور ان کے سامان کی کوئی خاص چیکنگ نہیں ہوتی اور کسٹم کا عملہ ہی انہیں ہینگر تک لے کے جاتا ہے ، سنئیر حکام آ گئے اور انہوں نے اعجاز چوہدری کو ایک طرف لے جا کر کچھ سمجھانے کی کوشش کی ، اعجاز چوہدری اکڑ گئے اور اپنی قانونی پوزیشن بتانے لگے ، نیز انہوں نے اس دوران سی اے اے اور نارکوٹیکس کے افسران کو بھی مطلع کیا،
دوسری طرف ایان علی بےزاری سے صوفے پر بیٹھ کر مالکوں سے مسلسل فون پر بات کرتی رہی تھیں ،
اسی دوران کسٹم ہی کے کسی فرد نے میڈیا کو خبر دی اور چند گھنٹوں میں پورے میڈیا میں خبر پھیل گئی کہ مشہور ماڈل ایان علی پانچ لاکھ ڈالر سمگل کرتے ہوئے پکڑی گئیں اور پکڑنے والا کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری ہے ،
بات چونکہ اب پھیل گئی تھی لہذا کسٹم حکام کو بھی مجبور ہو کر سٹینڈ لینا پڑا ، انہوں نے ایان علی کہ سفری دستاویزات اور ڈیٹا کی انکوائری کی تو صرف ایک سال میں ایان علی 43 مرتبہ دبئی کا سفر کر چکی تھیں۔
ایان علی نے دوران تفتیش اقرار کیا کہ وہ اپنے ذاتی اخراجات اور شاپنگ کے لیے ڈالر ہی لے کر جاتی تھیں ، اس بار 43 ویں مرتبہ پکڑی گئی تھیں،
جب اس سے پوچھا گیا کہ اتنے ڈالر اس کے پاس کہاں سے آئے اور وہ ڈالر ہی کیوں لے کے جاتی ہیں؟ تو ان کے پاس صرف ایک جواب تھا ، یہ میری اپنی کمائی ہے۔ ایان علی کی گرفتاری کے فورا بعد پیپلز پارٹی کی لیگل ٹیم نے ان کا کیس لیا،
سردار لطیف کھوسہ ان کا وکیل بنا، ملک کے چوٹی کے وکیلوں نے بیٹھک کی اور مختلف قانونی نقاط اور پوائنٹس اکھٹے کئے ، انہی وکیلوں میں آج تحریک انصاف کے لئے ہیرو کا درجہ دینے والے اعتزاز احسن بھی شامل تھے۔
انہوں نے ایان علی کے کیس کی پوری پیروی کی، ہر ہر قدم پر وہ لطیف کھوسہ کو گائیڈ کرتے رہے حالانکہ یہ سو فیصد شفاف اور اوپن اینڈ شٹ کیس تھا،
شریف خاندان کے میڈیا سیل اور زرداری مخالف صحافیوں اور تحریک انصاف کے کارکنوں اور سوشل میڈیا نے ایان علی کا نام زرداری سے جوڑا۔گرما گرم ٹاک شوز ہونے لگے، پیپلزپارٹی کے لیڈروں سے سوال جواب ہونے لگے تو وہ ٹاک شوز میں شدید غصہ ہوجاتے تھے،
سیاست دانوں کو لڑانے والے اینکروں کی بھی چاندی ہو گئی
شرمیلا فاروقی سے لے کر شہلا رضا تک اور مصطفی کھوکھر سے لے کر سعید غنی تک نے مریم صفدر اور کلثوم نواز پر ذاتی حملے کیئے۔
دوسری طرف تحریک انصاف کے کارکن سوشل میڈیا پر چھائے رہے ، انہوں نے بھٹو تک کو قبر سے نکال دیا ، آج بھی پیپلز پارٹی کے وزیروں مشیروں سے ایان علی کا پوچھا جائے تو وہ شدید غصے کا اظہار کرتے ہیں
اور زرداری کو ولی اللہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں
بہر حال ایان علی کی گرفتاری سے اس ریاست اور اس کے اداروں کا اصل امتحان شروع ہوا ،
وہ جیل گئیں ،پھر جب پیشیوں پر آتی تھی تو پورے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ بیش قیمت برانڈ کے ڈریس اور تازہ میک اپ کر کے عدالت آتی تھیں۔
انہیں جیل کے فائیو سٹار بیرک میں رکھا گیا ، کمرے میں دنیا کی ہر سہولت موجود تھی ، وہ امپورٹڈ منرل واٹر پیتی تھیں اور ناشتے میں امریکن و چائنیز فوڈ کھاتی تھیں ،انہیں ورزش کی مشینیں مہیا کی گئیں،
ان کا فون اور لیپ ٹاپ کسٹم حکام کے پاس تھا لہذا انہیں ایک اور فون دیا گیا۔ان کی خدمت کے لیے پوری جیل کا عملہ وقف تھا،
ایان علی کے سارے کیس اور قید میں سب سے زیادہ چاندی وکیلوں کی ہوئی،
انہوں نے جم کے دیہاڑیاں لگائیں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ فائدہ جیل حکام اور پولیس والوں کو ہوا ، تیسرے نمبر پر میڈیا تھا جس نے زرداری اور ملک ریاض دونوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا ساتھ شریفوں سے بھی زرداری کی مخالفت میں فائدہ اٹھاتے رہے،
ایان علی ملکی تاریخ کی پہلی قیدی تھیں جنہیں جیل میں فائیو سٹار ہوٹل کی سہولیات دی گئی ، ایسی سہولیات ذوالفقار علی بھٹو جیسے شخص اور نصرت بھٹو و بے نظیر بھٹو سمیت آصف زرداری اور نواز شریف تک کو نہیں دی گئی تھیں
حتی کہ مریم نواز سمیت جتنی بھی بڑی بڑی سیاسی شخصیات جیل گئی ہیں انہیں یہ سہولیات نہیں ملیں ،
دوران تفتیش جو کچھ ہوا اس سے ہر شخص باخبر ہے ،لیکن اس سب کے بیچ جو سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری تھے،
ان کے افسران اسے ملامت کرتے ،ان کے کولیگز انہیں نفرت بھری نظروں سے دیکھتے ، دوران جرح ایان علی کے وکیل اعجاز چوہدری کو گالیاں اور جھڑکیاں دیتے ، عدالت کے احاطے میں انہیں دھمکیاں دیتے ، انہیں نا معلوم نمبروں سے کالیں آتی،
انہیں قتل کرنے کی دھمکیاں دی جاتی لیکن وہ اپنی جگہ کھڑا رہے ، انہیں ہر قسم کا لالچ دیا گیا لیکن وہ کیس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے ، اس کی ترقی روک دی گئی اور بجائے اس کے کہ انہیں انعام دیا جاتا ، انہیں پابند کیا کہ جب تک کیس کا فیصلہ نہی ہوتا وہ کسٹم کاونٹر پر خدمات نہیں دیں گے ۔
انہوں نے تمام ثبوت اکھٹے کئے اور عدالت کو دے دئیے، جب فرد جرم لگنے کی تاریخ قریب آگئی اور انہیں بطور عینی گواہ پیش ہونا تھا ،انھیں اپنے گھر کے سامنے دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے قتل کر دیا ،پولیس آئی اور ان کی لاش پوسٹ مارٹم کے لئے لے گئی،
چند دن میڈیا پر ہاہا کار رہی پھر تھانہ وارث خان پولیس نے ان کی قتل کو ڈکیتی کی واردات قرار دے کر فائل بند کردی ،کسٹم حکام بھی بلکل خاموش ہوگئے ،اعجاز چوہدری کی بیوی سر پیٹ پیٹ کر تھانوں عدالتوں میں دھاڑیں مارتی رہیں لیکن انہیں ہر طرف سے دھتکار دیا گیا ،ان کے ساتھ ان کا کم سن بیٹا عدالتوں کے احاطے میں بدترین گرمی میں رلتا رہتا لیکن کسٹم حکام اور اعجاز چوہدری کے ساتھی ان سے نظریں چرا کر ایک طرف ہوجاتے۔
اعجاز چوہدری مر گئے تھے ۔
عدالت نے ایان علی کو منی لانڈرنگ کیس میں اور اعجاز چوہدری کے قتل کے ایف آئی آر میں نامزد ملزم کی حیثیت سے بری کردیا اور اسے پاسپورٹ واپس دے دیا ،
آج ایان علی دبئی کے سب سے مہنگے ترین علاقے میں رہائش پذیر ہیں ان پاس ڈاج کی سپورٹس کار ہے ،پچھلے دنوں انہوں نے منی رولز رائس خریدی ہے ،وہ فائیو سٹار ہوٹلوں میں قیام کرتی ہیں اور پام جمیرا میں بیچ کی سیر کرتی ہیں،
رہے اعجاز چوہدری تو وہ قبر کے اندھیروں میں اتر گئے ،ان کی بیوی اور کم سن بیٹا تین مرلے کے مکان کی بوسیدہ دیواروں پر ان کا عکس ڈھونڈتے ہیں ،ان کے شیو کا سامان اور تولیہ اور وردی ان کی بیوی نے سنبھال کر رکھے ہیں لیکن انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے بیٹے کو کسٹم میں بھرتی نہیں کرائیں گی ،ان کے سنگی ساتھی ان کی خالی کرسی کو آج بھی دکھ سے دیکھتے ہیں ،اعجاز چوہدری کی روح اسلام آباد کے پرانے ائرپورٹ کی فضاوں میں دیکھی جا سکتی ہے،
اسکی موت کا سایہ آج بھی اسلام آباد ائر پورٹ پر سایہ فگن ہے،اسلام آباد کے پرانے ائیرپورٹ پر اعجاز چوہدری کی لاش اور روح کے پرچھائی کو محسوس کیا جاسکتا تھا،ان کی بیوی کے ماتم اور آنسوؤں کو محسوس کیا جا سکتا تھا،ان کے کم سن بیٹے کی سسکیوں میں دل سے محسوس کیا جا سکتا تھا اور اس کے بابا کی چیخیں کانوں میں محسوس کی جا سکتی تھیں۔
آج اسلام آباد کا نیا ائر پورٹ بن گیا ہے ،وہاں اعجاز چوہدری کے موت کے سائے نہیں ہیں لیکن وہاں کے کسٹم انسپکٹر اب اعجاز چوہدری والی غلطی نہیں دہرائیں گے