248

چائے کی چسکیاں اور سگریٹ کے کش بھرتے جنونی صحافی

یہ تحریر 8مئی 2020 کو پہلی بار 9 نیوز پر شائع کی گئی تھی…!

سوشل میڈیا میں انقلاب لانے کے لئے حکومت کو سوشل میڈیا صارفین کی سرپرستی کرنا ہوگی۔

تحریر: رحیم خٹک

2002 تک میڈیا ورکرز کھدڑ کا سوٹ پہنے چائے کی چسکیاں اور سگریٹ کے کش بھرتے وہ جنونی اور تحقیقاتی صحافی ہوا کرتے تھے جنکی معاشرے میں عزت اور مقام ہوتا تھا۔



پھر یوں ہوا کہ حکومتوں نے میڈیا ہاؤسز کو سبسڈایز کرنا شروع کر دیا۔
تب میڈیا ہاؤسز کے مالکان اور اینکرز (میڈیا ہاؤسز کے دانت) نے دن دگنی رات چگنی ترقی کی۔ اور ان کا لیونگ سٹینڈرڈ شاہانہ ہوگیا۔



اینکرز دراصل میڈیا مالکان کے وہ دانت ہوتے ہیں جنہیں دکھا کر وہ حکومتوں کو بلیک میل کرتے ہیں کہ ہمارے پاس یہ ہیں اور یہ تمہیں کچا چبا جائیں گے۔
اسی وجہ سے میڈیا ہاؤسز میں سب سے زیادہ مراعات اینکرز حضرات کو حاصل ہوتی ہیں۔اور میڈیا ہاؤسز کو کما کر بھی وہی لوگ دیتے ہیں۔



چونکہ حکومتیں کرپٹ ہوتی ہیں انکی مجبوری ہوتی ہے رل کے کھنڈ کھانے کی تو وہ میڈیا ہاؤسز کو اربوں روپے کی سبسڈی فراہم کرتی ہیں۔
لیکن اس بار کچھ مخلتف ہوگیا اور وزیر اعظم عمران خان نے چینلز اور اینکرز کو سبسڈائز کرنا بند کردیا۔



جیسے ہی وزیر اعظم نے سبسڈی بند کی میڈیا ہاؤسز حکومت کے خلاف ہوگئے۔
ہر محاذ پر حکومت کو ڈرایا جانے لگا۔ لیکن عمران خان اپنی کہی بات پر ڈٹ گئے

سوشل میڈیا کو سرپرستی کی کیوں ضرورت ہے؟

سوشل میڈیا میں بہت گاربیج ہے بہت کچرا ہےلیکن



یہ بھی سچ ہے کہ اسی سوشل میڈیا میں بڑے بڑے نامور اور دیانتدار لوگ بھی موجود ہیں اگر حکومت سوشل میڈیا کی رہنمائی کرنا شروع کر دیتی ہے تو اسی سوشل میڈیا سے محمد ادریس اور زیڈ اے سلہری جیسے لوگ اوپر آئیں گے۔یہاں یہ امر ضروری ہے کہ حکومت سوشل میڈیا صارفین میں سے نیوٹرل اور غیر جانب دار لوگوں کی سرپرستی کرے نا کہ خوشامدی غلاموں کی۔

سوشل میڈیا کو صرف اور صرف دیانتداری اور سرپرستی کی ضرورت ہے۔
سوشل میڈیا کے صارفین کو اشتہاروں، اور سبسڈیز کی ضرورت نہیں ہے۔
نا ہی سوشل میڈیا کے لوگ موسم کے حساب سے اپنا لیونگ اسٹائل تبدیل کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔



اپنی دیانتداری سے کام کرنے والے یہ رضاکار معاشرے کا بہترین آئینہ بن سکتے ہیں حکومت کو صرف انکو اپنی سرپرستی میں لینے کی ضرورت ہے۔

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں