256

آزادی ریپ اور قتل

‏آزادی+ریپ=قتل

تحریر: ارم شہزادی

بظاہر دیکھا جائے تو اس کا آپس میں جوڑ بنتا بھی ہے اور نہیں بھی۔ کیونکہ اس موضوع پر دو طبقات کی سوچ مختلف ہے، پردہ کے حامی ازادی کو موردالزام ٹھہراتے ہیں جبکہ لبرل یا ازاد طبقہ اسے مجرم کی سوچ کو ٹھہراتے ہیں لیکن سوچ بنتی کیسے ہے اس پر خاموش ہیں۔ پاکستان کے قوانین چونکہ قرآن و شریعت سے لیے گئے ہیں اس لیے جرائم کی سزا بھی انہیں قوانین کے مطابق ہے لیکن مسلہ یہ ہے کہ پھر ازاد طبقہ ان قوانین کو بھی نہیں مانتا ہے اور مجرم کے بچاؤ کے لیے تاویلیں گھڑ لیتا ہے۔ جبکہ پردہ یا اسلامی طرز زندگی جرائم کو خاص طور پر جنسی زیادتی اور اسکے بعد ہونے والے قتل کو ازادی سے جوڑتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب مدر پدر ازادی ہوگی تربیت کا فقدان ہوگا مخلوط تعلیمی ادارے ہونگے مخلوط جگہوں پر نوکری ہوگی تو جنسی بے راہ روی بڑھے گی۔ اسلامی طرز زندگی کو بہترین اصول ماننے والے اس کو قران پاک کے نقطہ نظر سے بیان کرتے ہیں قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
(مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں خدا ان سے خبردار ہے) القرآن

اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے کھلا رہتا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹیوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجیوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت (اور سنگھار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں (ایسے طور سے زمین پر) نہ ماریں (کہ جھنکار کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے۔ اور مومنو! سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤقرآن پاک کی ان آیات کو دیکھیں تو ہمیں پورا ایک نمونہ دیا گیا ہے زندگی گزارنے کے لیے۔ اس میں یا پورے قران پاک میں کہیں بھی عورت کوقید کرنے کا حکم یا زکر موجود نہیں ہے۔ بلکہ عورت کو توازادی اور جینے کا حق دیا ہی اسلام نے ہے۔ اس سے پہلے تو دفن کردیا جاتا تھا۔ جس یورپ کی مثالیں یہ ازاد خیال طبقہ دیتا ہے اس یورپ میں عورت کو گناہ کہا گیا فتنہ کہا گیا جائداد میں حق تو دور کی بات ہے ایک مرد کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی تھی۔ یہ اسلام ہی ہے جو عورت کو مقام دیتا ہے ماں ہے تو جنت ہے بہن ہے تو عزت ہے بیٹی ہے تو ناز ہے بیوی ہے تو راحت ہے سکون ہے۔ جب کہ ازاد طبقہ اس سے بے نیازی چاہتا ہے یورپ کی طرح۔ ہر ملک کی اپنی روایات ہوتی ہیں اپنا ثقافتی ورثہ ہوتا ہے۔ اور اسکے اپنے جزاوسزاکے قوانین ہوتے ہیں۔ اگر ازادی کا مطلب رشتوں سے پردے سے بے نیاز ہوجانا ہے اوراسی میں ہی فائدہ ہے تو پھر پورا یورپ تو بہت ازاد ہے وہاں ریپ کیوں ہوتے ہیں؟ قتل کیوں ہوتے ہیں؟ ‏فرانس کی مثال لے لیں جہاں ہر آٹھ میں سے ایک عورت کا ریپ ہر دس سے پندرہ منٹ بعد ہوتا ہے جانتے ہیں کیوں کیونکہ وہاں پر بھی ایسا ہی لباس پہنا جاتا ہے جو آج ہم مسلمان خواتین پہن کر نکلتی ہیں اور پھر کچھ ہو جائے تو چیخنا چلانا شروع کر دیتی ہیں ہم. فرانس میں عبایا پہننے پر پابندی لگا دی ہے جبکہ پہلے مسلمانوں خواتین کو دیکھ کر وہاں کی غیر مسلم عورت بھی عبایا کرتی تھی کیونکہ وہ محفوظ تصور کرتی تھی مسلمان عورت کی طرح خود کو. پھر جب وہاں پر عبایا پہننے ہر پابندی لگی تو مسلمانوں کیلئے تو مشکل ہوئی ہی لیکن ایک آزاد معاشرہ کی آزاد خاتون کہلانے والی عورت بھی محفوظ نہ رہی اور آج وہی آزاد خواتین عبایا پہن کر خود کو محفوظ تسلیم کرتی ہیں.یقیناً اج جرائم کا تعلق نفسانی خواہشات سے ہے اور یہ نفسانی خواہشات ابھرتی ہیں اس وقت جب وہ اپنے آس پاس ایسی خواتین کو دیکھتے ہیں جنکے تن پے کپڑا برائےنام ہوتا ہے۔آج ہونے والے واقعات میں 90فیصد ہاتھ ہی بے جا ازادی کا ہے اور ان ویب سائٹس کا جہاں ایک کلک کی دوری پر آپ کو سب کچھ مل جاتا ہے۔ اب ایسی تمام چیزیں نفسیات پر برے اثرات مرتب کرتی ہیں چونکہ ہر ایک کو تو اپنی نفسانی شہوت کو پورا کرنے کے لیے ساتھی میسر نہیں ہوتا ہے اس لیے پھر وہ آسان ٹارگٹ ڈھونڈتا ہے۔ اور یہ آسان ٹارگٹ بچے ہوتے ہیں چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں بلاتفریق۔ بدقسمتی دیکھیں پہلےیہی بچے گھر کی محلے کی رونق ہوتے تھے اس سے بڑھ کر کہ اپنے ہیں یا دوسروں کے لیکن اب اپنے ہی گھر میں غیر محفوظ اپنوں کے ہاتھوں ریپ کے بعد قتل ہوجاتے ہیں۔ اور یہ تب تک ہوتے رہیں گے جب تک ادارے اپنی آنکھیں نہیں کھولیں گے جب تک زینب الرٹ بل پر عملدرآمد نہیں ہوگا۔

جب تک سزا کا تعین ریاست کی جانب سے نہیں ہوگا، جب تک عدالتیں مجرموں کو ضمانت کے نام پر ریلیف دینا بند نہیں کریں گی۔ کیونکہ اگر ازادی کو ہی مسیحا مان لیا جائے تو نور مقدم جیسے واقعات نا ہوں۔ قوانین پر عمل ہو تو نسیم بی بی جیسے واقعات بھی نا ہوں۔ پوچھیں ان والدین سے جنکے بچے کوڑے کے ڈھیر سے ملیں یا گٹر سے ملیں۔ اس نام نہاد ازادی کو ختم کر کے اسلامی قوانین نافذ کریں۔ جس مجرم کی جو سزا ہے سرعام دیں اور ساتھ ساتھ وہ تمام ویب سائٹس بند کریں جہاں نفسانی خواہشات کو ابھارنے کا مواد موجود ہے۔ والدین سے گزارش ہے ہے کہ اپنے بچوں کو وقت دیں انکی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ موبائل لے کر دینا محبت ہوسکتی ہے لیکن تربیت کا تقاضا ہے کہ اس، موبائل پر سرچ ہسٹری ہر نظر رکھیں۔ اسلامی طرز زندگی پر خود بھی عمل کریں اور بچوں کے لیے بھی مشعل راہ بنیں۔ کہیں کوئی سانحہ ہو جائے تو خاموش ہونے کے بجائے اواز اٹھائیں تب تک جب تک فیصلہ ہو نہیں جاتا۔ یہ ہماری انے والی نسل کا سوال ہے انکے مستقبل کا سوال ہے۔
جزاک اللہ

9news
Follow
Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں