آخر کب تک عورت تشدد سہتی رہے گی؟

عورت پر تشدد تو ہمیشہ سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ کبھی وہ جنسی تشدد کا نشانہ بنائی جاتی ہے تو کبھی جسمانی تشدد کا۔ آخر مرد کی نظر میں عورت کیا ہے؟ کیا اس معاشرے میں عورت کو بغیر کسی تشدد کے زندگی گرانے کا حق نہیں؟ آخر کب تک عورت تشدد سہتی رہے گی؟ ہر سال تقریباً ہزاروں کی تعداد میں خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں اور اس قدر ہوتی ہیں کہ زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ جو کچھ روز قبل 15 جولائی کی رات کو سندھ کے دوسرے بڑے شہر میں پیش آیا جس کا شکار چار بچوں کی ماں، قرةالعین ہوئی۔
قرةالعین اپنے شوہر کے ہاتھوں شدید تشدد سہنے کے بعد قتل ہوئی۔ قرةالعین بلوچ کی شادی 2012 میں عمر میمن جو کہ سابق سیکرٹری آبپاشی سند خالد حیدر میمن کا بیٹا ہے اس سے ہوئی۔ شادی کے ایک دو سال تک تو سب ٹھیک رہا پر پھر جیسے جیسے شادی آگے بڑھتی گئی عمر میمن اپنے بیوی بچوں پر تشدد کرنے لگا۔ مقتولہ کی بہن کا کہنا ہے کہ عمر میمن ایک شرابی ہے۔ وہ بات بات پر میری بہن کو مارتا پیٹتا اور بچوں پر بھی تشدد کرتا ان کے سر پھاڑ دیتا، ہاتھ توڑ دیتا۔ اکثر اوقات میری بہن کو مار پیٹ کے گھر سے نکال دیتا اور دوسری عورتوں کو گھر بلوا کر عیاشی کرتا۔ قاتل کے والد کو اس تمام صورتحال کا علم تھا اور وہ اکثر کہتے تھے کہ اگر میرے بیٹے کو گرفتار کروایا تو میں اسے دوبارہ باہر نکلوا لوں گا۔ 15 جولائی کی رات جب عینی کا قتل ہوا تو اس کی بڑی بیٹی رامین زہرہ جس کی عمر نو سال ہے اس نے اپنی ماں کا قتل ہوتے دیکھا اور وہ اس سارے واقعے کی عینی شاہد ہے اور اب تک کے تمام بیانات وہی دے رہی ہے۔ ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ جب ہم نے پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر کٹوانی چاہی تو پہلے پولیس نے منع کردیا اور اب جب ایف آئی آر درج ہوگئ ہے تو پھر بھی پولیس اس کو بچانے کے لیے کوشاں ہے اور وہ مسلسل اسی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ پولیس کی یہ کوشش ہے کہ اب جب پوسٹ مارٹم کی فائنل رپورٹ آنے والی ہے تو اس میں کسی طرح ردوبدل کر کے قتل کو خودکشی کا رنگ دیا جائے تاکہ مجرم کو بچایا جاسکے جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ مقتولہ میں شدید تشدد ہوا تھا۔ اگر اب بھی ہم چپ کرکے بیٹھ گئے تو ہمیں انصاف نہیں ملے گا اور درندہ آزاد ہوجائے گا۔ لیکن ہم چپ کرکے نہیں بیٹھیں گے ہم انصاف کی خاطر لڑیں گے۔ اسی سلسلے میں ہفتے ہی رات سے مقتولہ کے لیے ٹوئیٹر پر ‘جسٹس فار قرةالعین’ کا ٹرینڈ چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ ویمن ایکشن فورم نے حیدرآباد کے قاسم آباد ٹاؤن میں واقع نسیم نگر چوک پر مقتولہ عینی کی تصاویر کے سامنے موم بتیاں جلا کر احتجاج کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ملزم کو سخت سزا دی جائے اور عینی کو انصاف دلوائیں ٹھیک اسی طرح سوشل میڈیا پر موجود عوام نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ ملزم عمر میمن کو پھانسی دی جائے تاکہ اس جیسے باقی درندوں کے لیے سبق ہو اور دوبارہ کوئی دوسری عینی ایسی حیوانیت کا شکار نا ہو۔ ہم سب کو مل کر خواتین پر تشدد کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی، ہمیں عینی کے ساتھ ساتھ ان تمام عورتوں کی بھی آواز بننا ہوگا جو دنیا سے ڈر کر خود پہ چپ کرکے تشدد سہتی رہتی ہیں۔ اور پھر ماں باپ کو بھی چاہیے کہ اپنے والدین ہونے کا صحیح حق ادا کرتے ہوئے جب بیٹیوں کو رخصت کریں تو انھیں یہ بات ذہن نشیں کروا کے بھیجیں کہ اگر یہ انسان نما شخص جانور نکل آئے تو بغیر کسی ڈر اور خوف کے واپس چلی آنا۔ اگر ایسا ہوجائے تو یقین جانیں اس دنیا میں بہت سی عورتیں شوہر کے ہاتھوں تشدد کی وجہ سے قتل ہونے سے بچ جائیں گی کیونکہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر ایسا ہی ہوتا ہے ماں باپ دنیا داری کا سوچتے ہوئے اور بیٹی کا گھر بسانے کی خاطر چپ سادھ لیتے ہیں اور بیٹیاں ان کی عزت کا پاس رکھتے ہوئے خود پر تشدد ہونے دیتی ہیں۔