417

میں پاکستان ہوں

میں پاکستان ہوں

کنزہ صدیق: رپورٹر/نامہ نگار

میں 14 اگست 1947ء کو پیدا ہوا۔۔
میں بتانا چاہوں گا کہ میرا پیدا ہونا کوئی آسان کام نہ تھا بہت سی جدوجہد بہت سی قربانیاں دینے کے بعد میں اس دنیا کے نقشے پہ آیا۔
بہت سے لوگوں کی محنت لگن اور ہمت سے معرضِ وجود میں آنے والا میں ایک اسلامی ملک تھا جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پہ رکھی رکھی ایسی پاک بنیاد ایسا پاک مقام مجھے حاصل ہوا لہذا میرا نام پاکستان رکھ دیا گیا یعنی “پاک سرزمین”

پاکستان

مجھے ایک آذاد ریاست بنایا گیا جس میں ہر مذہب کے لوگ آسانی سے اپنے مذہب کی پیروی کرسکیں گے جس میں ہر طبقہ کے لوگوں کو آذادی ہوگی۔ اس پہچان کے لیے میرے نام کا پرچم بھی بنایا گیا۔ جسکا ڈیزائن سید امیر الدین قدوائی نے قائد اعظم کی ہدایت پر مرتب کیا تھا۔ یہ گہرے سبز اور سفید رنگ پر مشتمل ہے جس میں تین حصے سبز اور ایک حصہ سفید رنگ کا ہوتا ہے۔سبز رنگ مسلمانوں اور سفید رنگ پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ سبز حصے کے بالکل درمیان میں چاند (ہلال) اور پانچ کونوں والا ستارہ ہوتاہے، سفید رنگ کے چاند کا مطلب ترقی اور ستارے کا مطلب روشنی اور علم کو ظاہر کرتا ہے۔
اس پرچم کو پاکستان کی اسمبلی نے 11 اگست 1947ء کو آذادی سے 3 دن قبل اپنایا تھا۔
میرے لیے ایک ترانہ بھی بنایا گیا جسے پاکستان کا قومی ترانہ کہا گیا۔
قومی ترانہ ،جو “پاک سرزمین” بھی کہلاتا ہے ، سرکاری طور پر 1954ء میں پاکستان کا قومی ترانہ قرار پایا ۔ اس کی دھن احمد جی چھاگلہ نے١٩٤٩ میں ترتیب دی جبکہ ترانے کے بول حفیظ جالندھری نے ١٩٥٢ میں تخلیق کیے۔ ترانے کے زیادہ تر الفاظ فارسی سے اخذ کیے گئے ہیں جبکہ ترانے میں اردو زبان کا اپنا صرف ایک لفظ “کا”استعمال ہوا ہے۔ اس ترانے کو اس وقت کے گیارہ معروف سنگیت کاروں نے گایا جن میں احمد رشدی، کوکب جہاں، رشیدہ بیگم، نجم آرا، نسیمہ شاہین، زوار حسین، اختر عبّاس، غلام دستگیر، انور ظہیر اور اختر وارث علی شامل ہیں۔قومی ترانے سے قبل پاکستان زندہ باد بطور قومی ترانہ استعمال ہوا کرتا تھا۔
میں ایک خود مختیار ریاست ہوں جو جنوبی ایشیا میں واقع ہے۔ میری 1,046 کلومیٹر (3,432,000 فٹ) طویل سرحد جنوب میں بحیرہ عرب اور خلیج عمان کے ساتھ ساتھ ساحلی پٹی ہے اور مغرب میں افغانستان، جنوب مغرب میں ایران، مشرق میں بھارت اور شمال مشرق میں چین سے لگتی ہیں۔
اللہ پاک نے مجھے ہر طرح کے موسم، صحرا، پہاڑ، معدنیات سے مالا مال کیا ہے۔
میری پہلی مردم شماری 1951ء میں ہوئی جب پاکستان سٹیزن ایکٹ نافذ کرکے بھارت سے آنے والے مہاجرین کا سلسلہ روک دیا گیا، اُس وقت میری آبادی 3 کروڑ 40 لاکھ تھی۔
جیسے جیسے آبادی بڑھتی گئ بے شمار مسائل کا سامنا ہوتا گیا میں دن بدن پریشانیوں کا شکار ہوگیا بے۔
اگرچہ اندرونی طور پر میں توڑ پھوڑ کا شکار ہوں لیکن میری روح مرنے والی نہیں۔ میری جیبیں بے شک خالی ہیں لیکن میرے پاس امیدوں کا ایک خزانہ ہے جو مجھے متحرک رکھتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ میرا سارا نظام درستگی چاہتا ہے کیونکہ برسوں کی غفلت اور لاپروائی نے اسے کافی متاثر کیا ہے، لیکن میرا دماغ ہنوز سلامت ہے اور یہ توانائی کے وسائل کی کمی سے نمٹنے کا کوئی طریق کار وضع کر لے گا۔ میں تاریکی میں ہی سہی کہ میرے تمام توانائیاں خرچ ہو چکی ہیں، لیکن ہر تاریکی کے بعد روشنی آتی ہے۔ جلد ہی شاید میں پانی کی کمی کا بھی شکار ہو جاؤں گا کیونکہ میرے آبی وسائل ختم ہونے والے ہیں لیکن اگر وسائل کے تحفظ کے حوالے سے میں نے اپنی ہوشیاری ثابت کر دی تو مجھے خشک سالی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ مجھ میں خوراک کی بھی کمی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ میں ایک سوہنی دھرتی ہوں اور میلوں پر پھیلی میری زرخیز زمین میری بھوک کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ تو چلیں آئیں موم بتیاں جلا کر جشن کا آغاز کریں۔
اللہ آپکا حامی و ناصر ہو۔
آمین

پاکستان زندہ باد۔

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں