239

انسانی داماغ کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا جانے والا خوفناک تجربہ “پروجیکٹ ایم کے الٹرا”

انسانی داماغ کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا جانے والا خوفناک تجربہ “پروجیکٹ ایم کے الٹرا”

تحریر و تحقیق: فضیلہ امل

اگرآپ سے یہ سوال پوچھا جائے کہ! کسی بھی ملک کی انتظامیہ کی کیا زمہ داریاں ہوتی ہیں؟ تو ایسے میں آپ کے دماغ میں یہی جواب ابھر کر سامنے آتا ہے کہ حکومت کا کام ہوتا ہے ملک کو آگے بڑھانا، ترقی کی طرف لے جانا، لاء اینڈ آرڈر بحال رکھنا۔ مختصراً یہ کہ! ملک کی مشینری کو چلانے کا کام مکمل طور پر حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔

اس پوائنٹ پر اگر آپ کو پتا چلے کہ کئی ایسی بھی حکومتیں گزری چکی ہیں جو کہ اپنے ہی لوگوں پر تجربات کرتی رہی ہیں اور کوئی عام یا معمولی تجربات نہیں بلکہ کچھ اس طرح کے تجربات جن سے لوگوں کے مائنڈ کو پوری طرح سے کنٹرول کیا جاسکے۔

جی ہاں ! یہاں بات ہو رہی ہے امریکی حکومت کی۔ جس نے 1950 کے دوران “پروجیکٹ ایم کے الٹرا” پر کام کیا تھا۔ جس کے تحت وہ اپنے ہی لوگوں پر experiments کرتے تھے جو بہت ہی زیادہ خطرناک تھے۔

آپریشن پیپر کلپ :

2 ستمبر 1945 کو جنگ عظیم دوئم اختتام پذیر ہوئی تھی۔ جس کے بعد ایسا سوچا جانے لگا کہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے مگر اس جنگ کے بعد انگلینڈ اور امریکہ جیسے اتحادیوں نے جرمنی جا کر وہاں سے کئیں سارے لوگوں کا احتساب کیا اس میں ہزاروں کی تعداد میں سائنسدان بھی شامل تھے۔ اور جنگ سے متعلقہ بہت ساری دستاویزات کو بھی ضبط کیا جن میں کچھ بہت ہی اہم معلومات تھی۔

اس پورے پروسیس کے دوران ان کے ہاتھ لگی Osenberg list۔ یہ ایک ایسی لسٹ تھی جن میں جرمنی کے سارے سائنسدانوں کے نام درج تھے جو کہ “تھرڈ رائٹس” کے لیے کام کیا کرتے تھے۔ ایسے میں امریکہ نے “آپریشن اوور کاسٹ” کو سر انجام دیا جس کے تحت جتنے بھی جرمن سائنسدان جو تھرڈ رائٹس کے لیے کام کرتے تھے ان سب کو اٹھا کر امریکہ لایا گیا۔ تاکہ امریکہ ہی میں رہ کر وہ امریکہ کے war weapon یا biology weapon پر کام کر سکیں۔ بعد میں اس پروجیکٹ کو آپریشن پیپر کلپ کا نام دیا گیا۔

اس وقت کے امریکی صدر Herry Truman نے صاف صاف کہا تھا کہ ایسے جرمن سائنسدانوں کو امریکہ نہیں لایا جائے گا جو نازیوں کے لیے کام کرتے تھے یا وہ کسی بھی طرح سے ” war criminal ” تھے۔ لیکن اس اس پورے آپریشن پیپر کلپ پر نظر رکھنےوالی تنظیم JIOA نے صدر کے ڈائریکٹ آرڈر کو یکسر نظر انداز کر دیا اور وہ تنظیم سارے سائنسدانوں کو امریکہ لے آئی تاکہ ان کے ساتھ مل کر biological weapons پر کام کیا جاسکے۔

ان میں راکٹ سائنسدانوں سے لے کر ایسے سائنسدان بھی شامل تھے، جو مائنڈ کنٹرول پر کام کر رہے تھے اور جیسے ہی امریکہ کو یہ بات پتہ چلی تو امریکہ نے جرمنی کی مدد سے اس پر مزید کام کرنا شروع کر دیا اور اسی پوائنٹ سے MK ultra کی شروعات ہوئی۔جس کے تحت جرمنی کے سائنسدان امریکہ سے مل کر دماغ کو کنٹرول کر کے اسے manipulate کرنے کے پروسیس پر کام کرنے لگے۔

پروجیکٹ ایم کے الٹرا:

امریکی حکومت 1953 سے لے کر 1973 کے درمیان پروجیکٹ ایم کے الٹرا یعنی انسانوں کی مائنڈ کنٹرولنگ پر تجربات کر رہی تھے اگرچہ یہ سسنے میں کافی عجیب لگتا ہے کہ آیا ایسا ممکن بھی ہے مگر درحقیقت وہ لوگ اس پروسیس میں کافی آگے نکل گئے تھے۔ اس تجربے کو انجام دینے کے لیے وہ متعلقہ شخص کے جسم میں ایک کیمیائی مواد انجیکٹ کرتے تھے اور کئی بار تو لوگوں کو پتہ بھی نہیں ہوتا تھاکہ ان کے اوپر تجربات کیے جارہے ہیں یعنی اس پروجیکٹ میں لوگوں سے کسی بھی قسم کی رضامندی نہیں لی جاتی تھی۔ ان تجربات کا شکار ایسے لوگ بھی ہوتے تھے جن کو پیسے کی اشد ضرورت ہوتی تھی یا پھر کوئی قیدی یا پھر کوئی ایسا شخص جسے کوئی لاعلاج مرض ہو۔

اس پورے expriment کے ہیڈ Dr Sidney Gottlieb تھے اور ان کا ماننا تھا کہ اگر ایک انسانی دماغ کو کنٹرول کر کے manipulate کرنے کے لیے دو مراحل ہوتے ہیں
1: پہلے سے دماغ میں موجود یاداشت کو خالی کرنا
2: نیا مائنڈ متعارف کرنا

پہلے مرحلے میں دماغ کو ساری یاداشت بھلا دینے کے لیے ڈاکٹر سیڈنی نے نشہ آور ادویات کا استعمال عمل میں لایا۔ یہاں تک کہ امریکی سی آئی اے قیدیوں پر ہر وہ نشہ آور دوا استعمال کرتی تھی جس سے قیدی آپے میں نہیں رہتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر سیڈنی ایسا truth serum بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے جس کو پینے کے بعد کوئی انسان جھوٹ بول ہی نہیں سکتا تھا۔اس موقف کی صداقت کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر ایک ٹروتھ سیرم کسی ملک کے پاس جنگی قیدی ہونے کی صورت میں ایک بہترین ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔

پروجیکٹ ایم کے الٹرا اتنا بڑا پروجیکٹ تھا کہ ان کے میں 100 سے زیادہ ادارے ملوث تھے اور ان اداروں میں یونیورسٹیاں، ہسپتال اور کئی سارے چھوٹے چھوٹےنرسنگ ہومز اور ایسی معمولی جگہیں جہاں جاتے ہوئے کوئی انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس پر experiment کر دیا جائے گا۔ اور ایم کے الٹرا کے تحت 160 سے بھی زیادہ چھوٹے چھوٹے expriments چل رہے تھے جن کے ذریعے مختلف طریقوں مختلف قسم کی نشہ آور ادویات دے کر اور ان ادویات کی مقدار بڑھا کر متعلقہ اشخاص کے برتاؤ پر نظر رکھی جاتی تھی

اور ان کو غصہ دلا کر ان کے مائنڈ کو manipulate کیا جاتا اس مقصد کے لیے جس دوا کا سب سے زیادہ استعمال کیا گیا اس کا نام LSD یعنی Lysergic acid diethylamide تھا۔ یہ ایک ایسی نشہ آور دوا تھینو لگ بھگ 1938کے دوران بننا شروع ہوگئی تھی اور 1943 میں تقریباً مکمل طور پر بنائی جا چکی تھی۔
اور اس ڈرگ کا سی آئی اے نے اتنا زیادہ استعمال کیا کہ ڈاکٹر سیڈنی نے1950 کےدوران کا سارا LSD کا پروڈکشن خرید کر امریکہ منگوا کر ملک کے ہر ادارے میں بانٹ دیا تھا۔

ایم کے الٹرا کے تحت کام کرنے والے 160 پروجیکٹس میں سے سب سے زیادہ چونکا دینے والا پروجیکٹ Operation Midnight Climax تھا۔ اس پروجیکٹ کے تحت سی آئی اے نے ایک فئیر ہاؤس بنایا جس کے اندر وہ prostitutes کو تعینات کرتے تاکہ وہ لوگوں کو سی آئی اے کے فیئر ہاوس کے اندر لے آئیں فئیر ہاوس میں داخل ہوتے ہی لوگوں کے جسم میں LSD انجیکٹ کردیا جاتا۔ اس فیئر ہاؤس کے اندر عجیب قسم کی روشنیاںاور تصاویر لگی ہوتیں،

جن کو دیکھ کر لوگ اپنا ذہنی توازن کھونے لگتےاور عجیب سا برتاؤ کرنے لگتے۔اور ان کے برتاؤ کو باہر بیٹھ کر ایک one way mirror کی مدد پوری طرح مانیٹر کیا جاتا اس کے بعد متعلقہ شخص کو اکسا کر اس سے خفیہ راز پوچھے جاتے تاکہ دیکھا جاسکے کہ وہ سچ بولتا ہے یا نہیں اور آیا کہ اس کے مائنڈ کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔تاہم یہ سارا پروسیس غیر قانونی تھا۔

Operation Midnight Climax

ایک بڑی کامیابی تھی جونہی اس کا تجربہ کامیاب ہوا تو اس کے سکوپ کو بڑھا دیا گیا۔ پہلے جو تجربات ایک فیئر ہاؤس میں کیے جاتے تھے اب سرعام کیفے اور پارکوں میں ہونے لگے۔ اس بار سی آئی اے کا مقصد یہ جاننا تھا کہ LSD انجیکٹ کرنے کے بعد لوگوں کا عوامی جگہوں پر کیسا برتاؤ ہوگا۔ اور سی آئی اے اس تجربے میں بھی کسی حد تک کامیاب ہوگئی تھی.

یہ expriment دس سال تک چلا جس میں سی آئی اے کو تواقعات کے مطابق بہت کم کامیابی ملی۔ اس لیے انہوں نے پروجیکٹ کو تھوڑا کم کرنا شروع کر دیا۔ اور 1963 کے دوران میڈیا اور میڈیا کے علاؤہ پولیس کو بھی ان پر شک ہونے لگا تھا۔ اس لیے انہوں نے تھوڑا سا بیک آؤٹ کیا اور 1965 تک Operation Midnight Climax کو تقریباً بند کردیاگیا۔ مگر یہ صرف ایک پروجیکٹ کی کہانی ہے جبکہ 159 پروجیکٹس پر ابھی بھی کام ہورہا تھا اور ان پروجیکٹس کو جاری رکھنے کے لیے سی آئی اے کسی بھی حد تک جاسکتی تھی یہاں تک کہ وہ لوگوں کی جان بھی لے سکتی تھی ۔ اور Franck Olson کے کیس میں بھی ایسا ہی ہوا۔

Franck Olson کے قتل کی وجوہات:

“Franck Olson”ایک سائنسدان تھےجوسی آئی اے کے لیے کام کر رہے تھے۔
اور 1953 کے دوران ایک پارٹی میں ان کے مشروب میں ایل ایس ڈی ملا دیا گیا۔ ٹھیک اسی سال 28 نومبر کو انہوں نے ہوٹل کے ایک کمرے کی کھڑکی سے کود کر اپنی جان دے دی۔ جب ان کی autopsy کی گئی تو پتہ چلا کہ انہوں نے خودکشی کی تھی اور یہ کہا گیا کہ ان پر کام کا پریشر بہت زیادہ تھا جس کی وجہ سے انہوں نے ایسا کیا۔ اور Franck کی فیملی نے بھی اس بات کو تسلیم کر لیا مگر ان کی اس خودکشی کے پیچھے ایک گہرا راز تھا جو چند سالوں بعد کھلا۔

دراصل Franck کو Aerosols Weapon میں مہارت حاصل تھی۔ مراد یہ کہ وہ ایسے ہتھیار بنا سکتے تھے جن سے ہوا میں کسی ڈرگ، مضر صحت کیمیکل کو پھیلایا جاسکے جس سے لوگوں کی جان بھی جا سکتی تھی یا انہیں ٹارچر کیا جاسکتا تھا۔

اور لوگ ماننے لگ گئے تھے کہ اولسن کے بنائے گئے ہتھیاروں کا استعمال کر کے، سی آئی اے لوگوں کو مار رہی تھی یا انہیں ٹارچر کر رہی تھی۔ اور Franck Olson سے یہ سب دیکھا نہیں گیا اس لیے وہ چاہتے تھے کہ وہ اس سب کو پبلک تک لے آئیں یہاں تک کہ اپنی موت سے چار دن پہلے 24 نومبر کو انہوں نے استعفی بھی دے دیا تھا۔ جس کے بعد انہیں کہا گیا کہ وہ نیویارک جائیں اور وہاں اپنا سائیکالوجیکل ٹریٹمنٹ کروائیں۔ اور بعد میں ان کا استعفی قبول کر لیا جائے گا۔ مگر نیویارک جانے کے بعد ان کی خودکشی کا واقع پیش آ گیا۔ جو کہ درحقیقت مبینہ قتل تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اسحاق ڈار صرف وزیر خزانہ بننے کیلئے پاکستان واپس نہیں آ رہے: عمران اسماعیل کا بڑا دعویٰ

قتل والی تھیوری اس وقت مزید واضح ہو گئی جب ایم کے الٹرا سے منسلک تمام پروجیکٹس فائلز کو عوامی سطح پر لایا گیا۔ اور ان فائلز کو پڑھ کر Franck کی فیملی بھی سمجھ گئی کہ انہوں نے خودکشی نہیں کی تھی بلکہ ان کو مارا گیا تھا۔ بعد میں اس قتل کا باقاعدہ کیس بھی چلا اور اس وقت کے امریکی صدر اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے Franck کی فیملی سے معافی بھی مانگی۔ سی آئی اے نے تو یہاں تک بھی اقرار کیا کہ Franck کو ایل ایس ڈی سے ڈرگ کیا تھا مگر انہوں نے یہ بات تسلیم کرنے سے یکسر انکار کر دیا کہ اس قتل میں ان کا کوئی ہاتھ ہے

کئی سالوں تک یہ کیس چلتا رہا اور 1984 میں Franck کی باڈی کی دوبارا autopsy کی گئی۔ جس میں پتہ چلا کہ خودکشی کرنے سے پہلے Franck کے سر پر ایک چوٹ آئی تھی۔ یعنی کسی نے انہیں مارا تھا اور پھر کھڑکی سے دھکیل کر نیچے پھینک دیا۔ اگرچہ یہ بات ثابت نہ ہو سکی مگر تمام ثبوت قتل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سی آئی اے نے 750000ڈالر معاوضہ بھی دیا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ وہ بھی معاملے میں قصوروار ہیں۔

مگر Franck کی موت کے ساتھ ہی یہ راز بھی ان کے ساتھ دفن ہو گیا کہ وہ دنیا کو کیا بتانا چاہتے تھے۔

آخر میں وہی ہوا جو کہ ہر غیر قانونی پروجیکٹ کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ پروجیکٹ بھی لوگوں کی نظروں میں آنے لگ گیا۔ اور جب بھی کوئی غیر قانونی کام عوامی نظر میں آنے لگتا ہے تو حکومت کو اسے روکنا پڑتا ہے۔ تاہم پروجیکٹ ایم کے الٹرا کو 1965 کے دوران ہی سکیل ڈاؤن کیا جارہا تھا اور 1973 تک تو یہ تقریباً پوری طرح بند ہو گیا تھا۔ اور 1974 میں ایک امریکی صحافی Samar Hars نے اپنی ایک سٹوری پبلش کی جس میں انہوں نے ایم کے الٹرا کے ڈھیر سارے تجربات کو ایکسپوز کیا جو کہ بہت ہی بڑا Backlash ثابت ہوا کیونکہ لوگوں کا اعتبار حکومت اور سی آئی اے سے مکمل طور پر اٹھ گیا۔

سب لوگ انصاف اور تحقیقات کا مطالبہ کرنے لگے۔ ایسے میں سی آئی اے کے ہیڈ نے بہت گہری چال چلی۔ انہوں نے ایم کے الٹرا سے متعلقہ سارے ڈاکیومنٹس کو تلف کروا دیا۔ اس کے باوجود بھی کیس چلا، قانونی جنگ ہوئی اور کچھ ڈاکیومنٹس کو ریکور بھی کیا گیا۔ اور ابھی تک اس پروجیکٹ کے بارے میں جتنی بھی معلومات ملی ہے وہ ان ہی ریکور شدہ ڈاکیومنٹس سے ملی ہے۔ جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس پروجیکٹ کا سکیل اتنا بڑا اور خطرناک نہیں تھا۔ مگر یہ بات قابل غور ہے کہ اس پروجیکٹ پر اتنا زیادہ پیسہ خرچ کیا گیا تھا جہاں ہزاروں کی تعداد ۔یں سائنسدان کام کر رہے تھے اور ہزار میں تعداد میں ادارے اس میں ملوث تھے۔

سی آئی اے کا کہنا ہے کہ اس پورے تجربے کے دوران صرف Franck Olson کی جان گئی مگر درحقیقت ایسے سینکڑوں لوگ تھے جن کی جان کے ساتھ کھیلا گیا تھا۔ جب نتائج کی بات آئی تو زی آئی اے نے صرف چودہ خاندان سے یہ کہہ کر معافی مانگی کہ یہ تجربہ صرف چودہ لوگوں پر کیا گیا تھا۔ لیکن درحقیقت یہ تجربہ ہزاروں سے بھی زیادہ تعداد کے لوگوں پر کیا گیا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ لوگ اس بات کو بھول گئے اور سب کچھ نارمل ہو گیا حتیٰ کہ گورنمنٹ بھی اس سے بچ نکلی۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا آج کے زمانے میں بھی حکومتیں ایسے پروجیکٹس کے ہمارے اوپر ایسے تجربات نہیں کر رہی ہوں گی؟
کیا ہم انسان آج بھی محفوظ ہیں یا ہم بھی کسی خفیہ سائنسی تجربے کا شکار ہیں؟
اس بارے میں میری ذاتی تھیوری ہے۔ وہ یہ کہ آج کے دور کا سب سے بڑا ڈرگ “سوشل میڈیا” ہے۔

ہم اپنا سب سے زیادہ وقت کہاں گزارتے ہیں ؟

اسکا جواب ہے انسٹاگرام پر، فیس بُک پر اور یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھ کر۔ اور ناجانے ایسے ہی کتنے سارے “سوشل میڈیا” ہینڈلز اور پلیٹ فارمز ہوتے ہیں، جہاں ہم اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ اور جو ٹائم ہم سوشل میڈیا کو دیتے ہیں اسے بہت سے Trappers ہمارے دماغ کو manipulate کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

کسی حکومت کی مثال لے لیں۔ ایک حکومتِ وقت ہوتی ہے، جسے مخالف طبقہ ہمیشہ برا بھلا ہی کہتا ہے جبکہ معاون طبقہ اسے ہمیشہ صحیح بتاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی رولنگ پارٹی نہ تو مکمل طور پر صحیح ہوتی ہےاور نہ مکمل طور پر غلط۔ اس میں صحیح اور غلط کے دونوں پہلو موجود ہوتے ہیں۔

مگر کوئی بھی چینل لگا کر دیکھ لیں، کہیں پر حکومت کی صرف خامیاں بتائی جائیں گی جبکہ کہیں پر صرف خوبیاں خواہ وہ کوئی نیوز چینل ہو یا پھر یو ٹیوب چینل، ہر جگہ آپ کے دماغ کو manipulate کیا جارہا ہوتا ہے۔ ہر کوئی اپنا ایجنڈا چلا رہا ہے۔ ہر کسی کا ایک مقصد ہے جس کے تحت وہ ہمیں ایک خاص طریقے سے برتاؤ کروانا چاہتے ہیں۔ مگر یہاں نقصان صرف ہمارا خود کا ہے۔ کیونکہ ہمارے دماغ کو manipulate کرکے کنٹرول کیا جا رہا ہے اور اب اس کے لیے باقاعدہ کسی ڈرگ کی ضرورت نہیں رہی۔ کیونکہ اب وہ دور نہیں رہا کہ ایک تجربہ کرنے کے لیے کسی کو ایک چیمبر کر اس کو الیکٹرک شاکس دیے جائیں یا ڈرگ اس کے اندر انجیکٹ کر دیا جائے اور ان کے رویے کو manipulate کیا جائے۔
نہیں۔

ان سب کے لیے سوشل میڈیا ہے۔ نیٹ فلیکس پر اس سے متعلق بہت اچھی اچھی ڈاکیومنٹریز بھی ہیں جو وارننگ دیتی ہیں کہ سوشل میڈیا سے متاثر ہو کر لوگ کس حد تک جاسکتے ہیں

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں