6 ستمبر 1965 پاک بھارت جنگ کا ہیرو “عبدالمجید چنہ”
ویب ڈیسک (9نیوز) شکارپور
شکارپور کے اس 72 سالہ پنجاب رجمنٹ کے ریٹائرڈ مجاہد کو گوکہ قوم نے بھلا دیا ہے لیکن اس کا جذبہ مجھے آج بھی جوان لگا ۔
عبدالمجید کا ذریعہ معاش پینشن کے 12 ہزار کے علاوہ محنت مزدوری ہے ۔
میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے وہ جیسے ماضی میں کھو سا گیا۔ جنگ کو یاد کرتے ہوئے میں نے اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک دیکھی ۔
1965 والی جنگ پہ میرے پوچھے گئے سوالوں پہ کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد گویا ہوا ؛
” صاحب! میں 1964 میں بھرتی ہوا ، مشکل سے ٹریننگ پوری ہی ہوئی تھی کہ بھارت نے رات کے دو بجے حملہ کردیا ۔ میں لاہور میں تعینات تھا ۔ سچ پوچھیں تو اس وقت ہمارے پاس لڑنے کے لیے اسلحہ تک پورا نہیں تھا ۔ دشمن لاہور بارڈر پہ 30 ٹینکوں کے ساتھ گھس آیا تھا ۔ گولوں کی بارش تھی ۔ ایک لمحے کے لیے کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا
کہ 30 ٹینکوں کا مقابلہ کیسے ہوگا لیکن ڈر اور خوف کا نام و نشان تک نہیں تھا ۔ ہمارے جوانوں نے صرف ایک لمحے کے لیے سوچا اور دوسرے ہی لمحے بموں کے ساتھ دشمن کی ٹینکوں کے نیچے گھس گئے ۔
30 میں سے جب 10 ٹیکیں آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں راکھ کا ڈھیر بن گئیں تو باقی ٹینکوں نے واپسی کی جو اسپیڈ پکڑی وہ دیکھنے کے قابل تھی ۔ ہمارے زخمی سپاہی بھی میدان جنگ سے واپس جانے کے لیے تیار نہیں تھے ۔
بارڈر پہ لڑی جانے والی جنگ سے لاہور کے شہری بھی بے خبر نہیں تھے ۔ جس کے ہاتھ جو لگا وہ ہتھیار بنا کے ہماری مدد کو پہنچا ۔ بہت ساری لڑکیاں ہاتھوں میں پھول اور مہندی کے تھال لے کے پہنچیں تھیں ۔ دنیا نے ایسا بے خوف جنگی ماحول نہیں دیکھا ہوگا ۔ ٹینکوں کا پیچھا کرتے ہوئے ہم دور تک دشمن کے علاقے میں گھس گئے تھے جہاں سے دودن کے بعد ہمیں واپس بلا لیا گیا ”
سپاہی عبدالمجید کی باتوں کے سحر میں میں کھو سا گیا ۔ جنگ میں آٹھ دشمن سپاہیوں کو مارنے والا عبدالمجید گدھا گاڑی چلاتا ہے اور شکارپور کی منڈی میں مزدوری کرتا ہے ۔ آج بھی 50 کلو کی بوری ایک جھٹکے سے اٹھا لیتا ہے ۔ آبا و اجداد کا پیشہ تو مٹی سے برتن بنانے کا تھا لیکن فوج کی نوکری نے اسے اس پیشے سے دور رکھا ۔ اس گمنام فرنٹ لائن سولجر کو آج کوئی نہیں جانتا ۔