265

صحافی اور پولیس

‏صحافی اور پولیس

تحریر: یاسر شہزاد تنولی

پولیس اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ پولیس صحافیوں کی بے حد عزت کرتی ہے۔ چائے پلاتے ہیں ساتھ تصویر بناتے ہیں۔ صحافی اتنے میں پھولے نہ سما پاتے ہیں کہ ہمارے فلاں آفسر کے ساتھ تعلق ،فلاں ایس ایچ او میری بہت قدر اور عزت کرتا ہے۔ اس افسر کا کہنا ہے کہ تمہاری خبریں اور تحریر بہت اچھی ہوتی ہے۔ وہ افسر میرے کام کی بہت تعریف کرتا ہے۔ اس طرح معاشرے کے افراد صحافیوں کی عزت کرنے لگتے ہیں کہ جب کبھی کام ہوا ،تو یہ کام آئے گا۔
صحافی افسران کو اپنا سمجھنے لگتا ہے۔ افسران کے قصیدے لکھتا ہے۔ ڈکیتی اور چوری کی خبریں شائع کرنے کی بجائے چھپا دیتا ہے۔ پولیس کے ظلم و ستم ، رشوت ستانی، ناانصافی کی خبروں پر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ بجائے میرٹ کرنے کے خبریں لکھتا ہے ویلڈن ، کرائم فائٹر، دبنگ آفیسر، جرائم کا خاتمہ وغیرہ وغیرہ۔ صحافی اندر سے ڈرتا بھی ہے کہ پولیس کی نہ تو دوستی اچھی ہوتی ہے، نہ پولیس کی دشمنی اچھی ہوتی ہے۔ کہ ایسا نہ ہو کسی مقدمے میں میرا نام ڈال کر مجھے زلیل وخوار کیا جائے۔
پولیس والے اچھی سیلری اور فیس لے کر ملک و قوم کی خدمت سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ ساتھ میں انعامات اور تعریفی اسناد وغیرہ۔ اس کے برعکس صحافی تنخواہ کوئی نہیں، گھر چلانے کے لیے محنت مزدوری، یا چند صحافی ناجائز ذرائع آمدنی۔ رشوت یا فیس نہیں، شیلڈ یا انعام نہیں۔ جتنی مرضی ایمانداری سے چلے ، بلیک میلر ، اور پتہ نہیں کیا کیا الزامات ۔ مطلب گھوڑا کھوتا برابر۔ بلکہ کھوتوں کی تو آج کل سنا ہے زیادہ قدر و منزلت ہے۔
اب صحافی کو کام پڑ گیا ہے،اپنا یا عزیز یا دوست کا۔ صحافی بڑا خوش ہوتا ہے،دل میں کہ میں نے تو اس آفسر کی بڑی تابعداری کی ہوئی ہے۔ انشاء اللہ جاتے ہی کام ہو جائے گا۔ کام بھی اتنا بڑا نہیں ہے۔ کام بھی جائز ہے ،ناجائز نہیں ہے۔ اب صحافیآافسر کے پاس پہنچ گیا۔ کام سے بھی چھٹی کی ، لینا دینا بھی کچھ نہیں۔ اب افسر پانی یا چائے ،عزت کرے گا۔
جیسے ہی صحافی کام بتائے گا۔ تو افسر کو یاد آ جاتا ہے کہ اس کام کے تو میں نے پیسے لیے ہوئے ہیں۔ اس مفت خورے نے دینا بھی کچھ نہیں ہے ۔ افسر فوری سوچتا ہے کہ اب اس کو کس طرح ٹالنا ہے۔ سر معاملہ چونکہ اوپر تک نوٹس میں ہے۔ اس لیے میں کچھ نہیں کر سکتا،آپ آ گئے ہیں، آپ سے وعدہ ہے ،میرٹ ہو گا۔ بے فکر ہو کر جائیں۔ یا کہا کہ مدعی کو مطمئن کر لیں ،ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اب اسی رات تفتیشی 5 ہزار روپے لے کر بندہ چھوڑ دیتا ہے۔بلکہ مدعی کو ڈرا دھمکا اور بے عزت کر کے راضی نامہ لکھوا دیتا ہے۔ یا کسی تفتیش میں 2 سے 3 بار صحافی جا چکا ہے۔ اب کسی نیچے ملازم کو حکم ہوتا ہے کہ اس کی بے عزتی کرو ، روایتی طریقہ اختیار کرو، تاکہ ہمارا سر چھوڈ دے۔ ہمیں فیس لے کر گناہ گار اور بے گناہ لکھنے دے۔ کیونکہ نہ اس نے پیسے دینے ہیں،نہ لینے دینے ہیں۔ اور تھانہ کہ آپ کو پتہ ہے کتنے اخراجات ہوتے ہیں۔ پھر صحافی پرچہ ہو جانے پر یا کوئی زیادتی ہو جانے پر پولیس کے کسی بڑے آفسر سے رابطہ کرتا ہے۔ اب بڑے آفسر کو سب پہلے سے ہی علم ہوتا ہے۔ یا وہ کوئی نوٹس نہیں لیتا ہے۔ صحافی سوچتا رہتا ہے کہ میں نے تو اس کی بڑی تابعداری کی تھی۔ زیادہ پریشر آنے پر پرچہ خارج کرنے کے احکامات،یا ریلیف دینے کے فرضی احکامات ۔ لیکن اس کے باوجود طریقہ پاکستانی اور روایتی، جمع قائد اعظم۔
اس سب کے باوجود،صحافی کڑتا رہتا ہے۔ لیکن مجبور ہوتا ہے،ویلڈن کے پی کے پولیس، ویلڈن پنجاب پولیس اور دیگر صوبائی اور ریاستی پولیس کی بھی تعریف کرتا ہے۔ کیونکہ اسے اچھی طرح پتہ ہوتا ہے کہ ہمارا دیس پولیس اسٹیٹ ہے۔ اور ہماری باری ان کو میرٹ یاد آ جاتا ہے۔ اور وہی کام ٹاؤٹ چند سکوں میں کروا لیتا ہے۔ صحافی کو اچھی طرح پتہ ہوتا ہے کہ یہاں کسی بھی جھوٹ پر مبنی من گھڑت کہانی میں نام آنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ اور کس طرح پیسے لے کر بے گناہ کو گناہ گار اور گناہ گار کو بے گناہ لکھ دیا جاتا ہے۔ کیونکہ لوگ روازنہ یہ معاملات لے کر اس کے پاس آتے ہیں۔ لیکن وہ خاموش رہتا ہے،کیونکہ اسے علم ہوتا ہے کہ ہماری پولیس کسی کو اٹھا کر غائب کر دے اور کچھ بھی کر دے۔ لیکن کچھ نہیں بنتا ، کیونکہ ہمارا ملک پولیس اسٹیٹ ہے۔ صحافی کو اچھی طرح پتہ ہوتا ہے کہ کس آفسر نے کتنا مال بنایا اور کس قدر تیزی سے ترقی کی ،لیکن وہ خاموش رہتا ہے کیونکہ اس کی باری پولیس کو میرٹ یاد آ جاتا ہے۔ صحافی کو اچھی طرح پتہ ہوتا ہے کہ کہاں تک کتنے پیسے پہنچ رہے ہیں، لیکن وہ خاموش رہتا ہے کہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ پولیس کی نہ دوستی اچھی ،نہ دشمنی۔

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں