دنیا بھر میں مانگنے کی تین بنیادی اقسام

بھیک، چندہ یا ڈونیشن اور سبسڈی یہ چاروں نام ہی “مانگنے” ہاتھ پھیلانے جھولی پھیلانے کیلئے استعمال ہوتے ہیں، دنیا نے مانگنے والوں کے معیار طے کر رکھے ہیں،
بھیک:
جب کوئی غریب مانگتا ہے تو اس کو بھیک کہا جاتا ہے اور لوگ اس کو حقارت سے بھی دیکھتے ہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ان لوگوں کو گاڑیاں بھر بھر کر ہر سگنل سے اٹھا کر تھانوں میں بند کرتے ہیں اور بعض اوقات جعلی بھکاری کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا اور میڈیا پر اپلوڈ کی جاتی ہیں جن میں دکھایا جاتا ہے کہ وہ بھکاری جو معذوری ظاہر کرکے مانگ رہا تھا دراصل وہ ایک فریب تھا اور ایسی کوئی معزوری ہے ہی نہیں،

چندہ:
دوسرے نمبر پر آتے ہیں امیر بھکاری، جب ایسے بھکاری مانگتے ہیں تو ان کو بھکاری نہیں کہا جاتا نا ہی ان کو پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے پکڑ کر تھانوں میں بند کرتے ہیں اور نا ہی ان کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، بلکہ ایسے مانگنے کو چندہ کا نام دے دیا جاتا ہے۔اور ایسے لوگ بڑے ہی رعب داب اور ڈھٹائی کیساتھ لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتے ہوئے چندہ دینے اور نیکی کمانے کا درس دے رہے ہوتے ہیں۔ جس فنکشن، گاڑی یا کوئی اور ذرائع ابلاغ استعمال کرتے ہیں ان پر آنے والے خرچ اسی چندے کی رقم سے لیا جاتا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جو لوگ اس کار خیر میں حصہ لے رہے ہوتے ہیں ان کو دیہاڑی بھی اسی چندہ میں سے دی جاتی ہے۔بلکہ کچھ این جی اوز کے اعلیٰ عہدیداروں کا یہ ماننا ہے کہ پہلے “حلق پھر خلق” اسی فارمولے کی بنیاد پر انہوں نے مجھے لوگوں سے چندہ اکٹھا کرنے کا کہا تھا کہ آپ کرو اور اپنی کوئی ماہوار تنخواہ مقرر کرلو، باقی جو بچے وہ این جی او کو دے دیا کرو۔ جس پر میں نے معذرت کرلی تھی۔
گو کہ چند تنظیمیں ایسی بھی ہیں جو خالصتاً اللّٰہ کی رضا اور انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ اور وہ ایک ایک پیسے کا حساب بڑی ہی نزاکت اور باریک بینی سے رکھتے ہیں تاکہ ایک ایک ٹکہ فلاح بنی نوع انسان کے کام میں لایا جا سکے، اس کی ایک بہترین مثال ایدھی فاؤنڈیشن ہے جسکی وجہ سے ہزاروں افراد روزانہ کی بنیاد پر مستفید ہو رہے ہیں اور پاکستان بھر کی عوام دل کھول کر ان کو زکوٰۃ اور عطیات دیتی ہے۔
سبسڈی:
بھکاریوں کی ایک تیسری اور خطرناک ترین قسم بھی ہوتی ہے جس کو ریاست کے امیر لوگ سبسڈی کا نام دے دیتے ہیں یہ ٹرم خاص طور پر سرمایہ دار اور کاروباری طبقہ استعمال کرتا ہے اس میں قوم کی ٹیکس سے جمع کیا گیا پیسہ چند سرمایہ داروں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور اس کو سبسڈی کا نام دے دیا جاتا ہے۔

یہی سرمایہ دار پھر اسی پیسے سے اپنی اپنی انڈسٹریز چلاتے ہیں اپنی پراڈکٹس مارکیٹ میں انہی لوگوں پر منافع پر بیچتے ہیں جن کے پیسوں سے وہ سبسڈی لیکر اپنا کاروبار چلا رہے ہوتے ہیں۔ یہ طبقہ جب سبسڈی کے پیسے سے امیر ہوتے ہیں تو عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ اور یہی طبقہ پھر خود کو اشرف المخلوقات میں شمار کرنے لگتا ہے اسی طبقہ نے وی آئی پی کلچر کو پروموٹ کیا ہوا ہے اور پر محفل پر جگہہ پر پروٹوکول کی تلاش میں رہتے ہیں۔
بھیک چندہ یا سبسڈی تین نام تو ضرور ہیں مگر ان کا مطلب ایک ہی ہے کہ “مانگنا”