198

مُلک سے مَلک تک

آنے والے دنوں میں اس کیس کے حوالے سے اٹھنے والا طوفان واپس سمندر میں جا کر غرق ہو جائے گا۔ اس کیس میں موجود شخصیت کا وزن، اس کی قدر اور اس کا دائرہ کار تمام ریاستی ڈھانچے پر حاوی ہے۔ یقیناً پیسہ بولتا ہے اور بولنے والوں کی بولتی بھی بند کر دیتا ہے۔

سید طلعت حسین: تجزیہ کار

(فائل تصویر: اے ایف پی)

آج سے کئی دہائیاں پہلے فیصل آباد (جو اس وقت لائیل پور ہوا کرتا تھا) کے صابریہ سراجیہ گورنمنٹ ہائی سکول میں نبیل چیمہ نام کے اردو کے استاد ہمیں زیر زبر پیش کے قواعد سمجھاتے ہوئے اکثر جذباتی ہو جاتے تھے۔

اپنے ہاتھوں اور ہاتھ میں موجود ڈنڈے کا فراخدلانہ استعمال کرتے ہوئے ہمارے ننھے ذہنوں کو ان گھمبیر تبدیلیوں سے آشنا کرواتے تھے جو زیر زبر پیش کے غلط استعمال سے رونما ہو سکتے ہیں۔ ان کی پسندیدہ مثال ’مَلک اور مُلک‘ تھی۔ وہ کہتے تھے کہ محض ایک پیش کے لگانے سے ایک ذات ایک جغرافیائی حقیقت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایک فرد سرحدوں تک پھیل جاتا ہے اور جملے میں استعمال ہونے والے تمام ضابطے ٹوٹ پھوٹ کر ایک بےمعنی اور بےمقصد پیغام بن جاتے ہیں۔

وہ چلا چلا کر ہم سے کلاس میں رٹے لگواتے تھے ’مَلک مَلک ہے، مُلک مُلک ہے ، مَلک مُلک نہیں ہے اور نہ مُلک مَلک ہے۔‘ چیمہ صاحب کی مار کھانے کے بعد ہم نے یہ سبق ازبر کر لیا۔ اس کے بعد ہم نے بھی اپنے بچوں کو اردو سکھاتے ہوئے اسی مثال کو ہی استعمال کیا۔

بہت عرصے تک ہم سمجھتے رہے کہ چیمہ صاحب کی سخت مار کے باوجود اردو لکھنے میں زیر زبر پیش کی احتیاط سیکھنے کا اس سے بہتر شاید کوئی اور طریقہ نہ تھا۔ زبردست ہونے کے لیے زیردست ہونا پڑتا ہے۔ مگر 2019 میں ہمارا یہ اعتماد ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ آج کے پاکستان میں کھڑے ہو کر جب ہم چیمہ صاحب کی پٹائی کو یاد کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ محترم استاد مستقبل شناس نہیں تھے۔

اس ملک میں زیردست کبھی زبردست نہیں ہو سکتا۔ یہاں زیر زبر پیش بےمعنی اعراب ہیں۔ ان علامات کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور یہ کہ مَلک ہی مُلک ہے اور مُلک مَلک۔

ظاہر ہے اس سنکی پن کے طاری ہونے میں ملک ریاض کے لندن میں 190 ملین پاﺅنڈ کے تصفیے والے کیس کا بڑا ہاتھ ہے۔ حکومت، حزب اختلاف کی جماعتوں اور میڈیا مالکان، صحافیان و دانشوران کی اکٹھی کاوش کے باوجود سوشل میڈیا نے اس کیس کی معلومات ہر گھر میں پہنچا دی ہیں۔ سوالوں کا ایک طوفان ہے جو جواب کی تلاش میں ہر بڑے دروازے سے ٹکراتا اور پھر جھنجھلاہٹ میں واپس چلا جاتا ہے۔ چٹخ پٹخ باتیں کرنے والے دم سادھے ہوئے ہیں۔

ریاست مدینہ کی عمرانی کتاب کے اوراق بھی کورے ہو گئے ہیں۔ عاشق اعوان کی احتساب سے عاشقی اور شیخ رشید کی کرپشن کے خلاف جہاد کی شیخیاں سب ہڑتال پر چلی گئی ہیں۔ نہ قوم کے امیج کے بارے میں مقتدر حلقے پریشان ہیں اور نہ کوئی پسندیدہ صحافیوں کو بلا کر جے آئی ٹی بنانے پر اصرار کر رہا ہے۔ سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ سب کی بولتی بند ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شہزاد اکبر جیسے لوگ یہ وضاحت کریں کہ وہ ملک ریاض کے پریس انفارمیشن آفیسر کے طور پر کام کر رہے ہیں یا حکومتی پالیسی کی نمائندگی کرتے ہیں؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جناب جسٹس جاوید اقبال اپنے اقبال کو بلند کرتے اور تاریخ میں جاوید ہونے کا بندوبست کرتے ہوئے پوچھتے کہ پاکستان سے کتنی رقوم کتنے عرصے میں کس طریقے سے باہر گئی ہیں؟

یہ بھی ہونا چاہیے تھا کہ ہمارے ہر وقت متحرک ادارے یہ جاننے کی کوشش کرتے کہ پاکستان میں یہ پیسے کیسے بنے؟ کتنے عرصے میں بنے؟ کہاں سے بنے؟ اور کیوں کر یہاں سے بھیجے گئے؟ لیکن زبر زیر ہو گئی اور پیش پیش ہونے والے قابل شرم پس و پیش کرنے لگے اور صرف یہی نہیں بلکہ ایک حیران کن کاوش کے ذریعے مُلک کو مَلک کے لیے وقف کر دیا۔

9news
Follow
Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں