حال ہی میں ایک خاتون نے کراچی میں بائیک کے لائسنس کے حصول کے لیے سرکاری دفتر سے رابطہ کیا تھا لیکن نہ صرف انہیں لائسنس دینے سے منع کردیا گیا بلکہ سختی سے بتایا گیا کہ خواتین کو یہ لائسنسز دینے کی ‘اجازت’ نہیں ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شیریں فیروزپوروالا نے اپنی ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ انہوں نے گزشتہ ماہ موٹر سائیکل چلانے کی کلاسز لی تھیں اور وہ بائیک چلانے کے قابل ہونے پر پرسکون تھیں۔
انہوں نے لکھا کہ وہ ابھی گاڑی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتیں اور دیگر ٹرانسپورٹ سروسز کے بڑھتے ہوئے نرخوں کی وجہ سے ان کے بجٹ پر بوجھ پڑ رہا تھا۔
شیریں فیروزپوروالا نے لکھا کہ تصور کریں کہ 8 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے کا یکطرفہ کرایہ 600 روپے (پیک ٹائمز میں کبھی کبھار 900 روپے) ادا کرنے پڑے، اس طرح لگ بھگ ایک دن میں (دفتر آنے اور جانے میں) 12 سو روپے لگ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے انہوں نے موٹر سائیکل لینے کا فیصلہ کیا۔