حافظ شاھد محمود
کامونکی گوجرانولہ
کرونا وائرس نے جہاں خوف کی فضا قائم کی ہے وہاں اس کے مثبت پہلو بھی نظر آ رہے ہیں ۔ جن کے پاس گھر والوں کے لیے وقت نہیں ہوتا تھا ۔ کام اور مصروفیت کا بہانہ بنا کر گھر والوں کو ٹال دیا کرتے تھے ۔ وہی کہہ رہے ہیں “کرونا سے بچنا ہے تو گھر رہنا ہے” اس صورت حال میں گھر کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
دیکھئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا فرمایا اور بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے
اگر ھم اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو شمار کرنا چاہیں تو کبھی شمار نہیں کرسکتے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
سورہ نمبر 18،آیت نمبر 18
وَ اِنۡ تَعُدُّوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحۡصُوۡہَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۸﴾
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم اسے نہیں کر سکتے ۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے ۔
مال دولت ، اولاد ، والدین ، فراغت ، اور صحت یقیناً یہ سب قیمتی نعمتیں ہیں ۔
اسی طرح ان نعمتوں کے ساتھ ساتھ ایک نعمت گھر ہے ۔ کیونکہ اس وقت لاک ڈاؤن چل رہا ہے ان حالات میں گھر کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔
گھر میں ہم دن رات بسر کرتے ہیں ۔ عمومی طور پر باقی نعمتوں کی طرح لوگ اس نعمت کی بھی ناقدری کرتے ہیں اپنے گھروں کو ویران اور شیطان کی آماجگاہ بنا لیتے ہیں ۔
معزز قارئین ! ان حالات میں گھر کی قدر اس سے پوچھو جو رات فٹ پاتھ پر ، کسی اسٹیشن یا پارک میں گزارتا ہے ۔ دنیا میں چار دیواری یا چھت کا مل جانا امن کے ساتھ اپنے اہل و عیال کو لیکر کہیں بیٹھ جانا یہ نعمت ہی نہیں بہت بڑی سعادت ہے ۔
ہم سب پر ہے کہ ہم گھروں کے ماحول کو صاف ستھرا بنائیں ۔ مسلمان اور کافر کے گھر کا فرق ہونا چاہیے مسلمان کے گھر کا ماحول ایسا پاکیزہ ہو کہ ہر پل آخرت کی طرف دھیان رہے ۔ گھر کی چار دیواری میں فحاشی اور برائی کا نام و نشان تک نہ ہو اس لیے ہم اپنے ضروری کام ، کاج سے فارغ ہو کر اپنا وقت اپنے گھر میں گزاریں ۔
آج کل ہمارے معاشرے میں جو آوارگی اور بے راہ روی ھے اسکی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں اور والدین کے ساتھ نہ ہونے کے برابر وقت دیتے ہیں اور سارا وقت بے مقصد دوستوں اور چوکوں چوراہوں میں گزار دیتے ہیں ۔
جن لوگوں کا گھر ٹہرنے کو جی نہ چاہے اور ہمہ وقت آوارگی کی فکر لاحق رہے انکے گھر کبھی آباد نہیں ہوسکتے اور نہ ازدواجی زندگی خوشگوار اور نہ والدین راضی ہوں گے ۔
دنیا کے فتنوں اور آوارگی کے برے نتائج سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ زیادہ وقت گھر والوں کو دیں اور چار دیواری میں گزاریں۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم:
نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ ذَكَرَ الْفِتْنَةَ، فَقَالَ: إِذَا رَأَيْتُمُ النَّاسَ قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَخَفَّتْ أَمَانَاتُهُمْ وَكَانُوا هَكَذَا وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: كَيْفَ أَفْعَلُ عِنْدَ ذَلِكَ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ ؟ قَالَ: الْزَمْ بَيْتَكَ وَامْلِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ وَخُذْ بِمَا تَعْرِفُ وَدَعْ مَا تُنْكِرُ وَعَلَيْكَ بِأَمْرِ خَاصَّةِ نَفْسِكَ وَدَعْ عَنْكَ أَمْرَ الْعَامَّةِ .
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران آپ نے فتنہ کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم لوگوں کو دیکھو کہ ان کے عہد فاسد ہو گئے ہوں، اور ان سے امانتداریاں کم ہو گئیں ہوں اور آپ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر بتایا کہ ان کا حال اس طرح ہو گیا ہو عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: یہ سن کر میں آپ کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا، اور میں نے عرض کیا: اللہ مجھے آپ پر قربان فرمائے! ایسے وقت میں میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھر کو لازم پکڑنا، اور اپنی زبان پر قابو رکھنا، اور جو چیز بھلی لگے اسے اختیار کرنا، اور جو بری ہو اسے چھوڑ دینا، اور صرف اپنی فکر کرنا عام لوگوں کی فکر چھوڑ دینا ۔
سننِ ابو داؤد# 4343
یعنی فتنوں کے دور میں زیادہ وقت اپنے گھروں میں رہو تو بہت سی الجھنوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہو گے ۔
قارئین اکرام ! موجودہ حالات میں آپ سروے اور تحقیق کرلیں جن لوگوں کو فضول پھرنے کی عادت ہے وہ طرح طرح کی عداوتوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور جو لوگ زیادہ وقت گھر میں گزارتے ہیں وہ سلامتی اور عافیت کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔
آج کل یہ نظریہ لوگوں میں زیادہ گردش کر رہا ہے کہ زیادہ وقت گھر میں رہیں تو گھر والوں کی نگاہ میں مقام اور وقار نہیں رہتا ۔ یہ سوچ آورہ مزاج لوگوں کی ہے اور معاشرہ اس سوچ کی بری سزا بھگت رہا ہے ۔ شریعت اسلامیہ ھماری یہی راہنمائی کرتی ہے کہ اپنے کاروبار اور ملازمت سے فارغ ہو کر گھروں کا رخ کریں ۔
آج کل مرد تو مرد عورتیں بھی اپنا وقت گھر سے باہر گزار کر خوش ہوتی ہیں ۔ منہ اٹھائے دن میں دس دس چکر بازار اور شاپنگ مالز کے لگانا معمولات زندگی اور فیشن بنتا جا رہا ہے ۔ شریف اور خاندانی لوگ اور شریعت اسلامیہ ہرگز ہرگز اس عمل کو اچھا نہیں سمجھتے ۔
القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب
آیت نمبر 33
وَقَرۡنَ فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ وَلَا تَبَـرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاهِلِيَّةِ الۡاُوۡلٰى وَاَقِمۡنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيۡنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ ؕ
ترجمہ:
اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔
بن سنور کر آزاد پھرنا بے دین عورتوں کی علامت ہے ۔ جن عورتوں کو بھی باہر رہنے کی عادت پڑ جائے تو انکو گھر کی چار دیواری میں گٹھن محسوس ہوتی ہے ۔ ضرورت کے تحت باہر جایا جاسکتا ہے لیکن غیر محرموں سے ہنس ہنس کے باتیں کرنا کسی صورت درست نہیں ۔
محترم قارئین! مجھے یہ بات سمجھانی ہے کہ فارغ اوقات اپنے گھروں میں گزاریں اور گھروں کے ماحول کو بہتر بنائیں کیونکہ گھر کے ماحول سے خاندان سنورتے اور بگڑتے ہیں اس لئے اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ
القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل
آیت نمبر 80
وَاللّٰهُ جَعَلَ لَـكُمۡ مِّنۡۢ بُيُوۡتِكُمۡ سَكَنًا وَّجَعَلَ لَـكُمۡ مِّنۡ جُلُوۡدِ الۡاَنۡعَامِ بُيُوۡتًا تَسۡتَخِفُّوۡنَهَا يَوۡمَ ظَعۡنِكُمۡ وَيَوۡمَ اِقَامَتِكُمۡۙ وَمِنۡ اَصۡوَافِهَا وَاَوۡبَارِهَا وَاَشۡعَارِهَاۤ اَثَاثًا وَّمَتَاعًا اِلٰى حِيۡنٍ ۞
ترجمہ:
اور اللہ نے تمہارے لیے تمہارے گھروں سے رہنے کی جگہ بنادی اور تمہارے لیے چوپاؤں کی کھالوں سے ایسے گھر بنائے جنھیں تم اپنے کوچ کے دن اور اپنے قیام کے دن ہلکا پھلکا پاتے ہو اور ان کی اونوں سے اور ان کی پشموں سے اور ان کے بالوں سے گھر کا سامان اور ایک وقت تک فائدہ اٹھانے کی چیزیں بنائیں۔
اس آیت سے واضح ہوگیا کہ گھر بہت بڑی نعمت اور سکون کی جگہ ہے ۔
یاد رکھیے سکون آوارگی شاپنگ مالز اور بازاروں کے بے مقصد چکر لگا کے حاصل نہیں ہوتا ۔ اگر گھر کا ماحول اچھا ہے تو صرف سکون ہی نہیں بلکہ لذت اور روحانی خوشبو آنا شروع ہو جاتی ہے ۔
آیئے ہم اپنے گھروں کا ماحول ایسا بنائیں کہ صبح و شام رحمت خداوندی کا نزول ھو اور ھمارے گھر اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا مرکز بن جائیں ۔
مسلمانوں کو ہر وقت اللہ کو یاد رکھنا چاہیے ۔ چاہے وہ کسی بھی حالت میں ہو ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران
آیت نمبر 191
الَّذِيۡنَ يَذۡكُرُوۡنَ اللّٰهَ قِيَامًا وَّقُعُوۡدًا وَّعَلٰى جُنُوۡبِهِمۡ وَيَتَفَكَّرُوۡنَ فِىۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۞
ترجمہ:
وہ لوگ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غورو فکر کرتے ہیں، اے ہمارے رب ! تو نے یہ بےمقصد پیدا نہیں کیا، تو پاک ہے، سو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
بالخصوص جب ہم گھر میں داخل ہوں اللہ تعالیٰ کو یاد کریں ۔ دعا کے ساتھ گھر میں داخل ہونا رحمت وبرکت کیساتھ گناہ معاف کروانے کا سبب بنتا ہے اسی لیے حکم ہے کہ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا وَلَجَ الرَّجُلُ بَيْتَهُ، فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ الْمَوْلَجِ وَخَيْرَ الْمَخْرَجِ، بِسْمِ اللَّهِ وَلَجْنَا وَبِسْمِ اللَّهِ خَرَجْنَا وَعَلَى اللَّهِ رَبِّنَا تَوَكَّلْنَا، ثُمَّ لِيُسَلِّمْ عَلَى أَهْلِهِ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہونے لگے تو کہے
«اللهم إني أسألك خير المولج وخير المخرج بسم الله ولجنا وبسم الله خرجنا وعلى الله ربنا توكلنا»
اے اللہ! ہم تجھ سے اندر جانے اور گھر سے باہر آنے کی بہتری مانگتے ہیں، ہم اللہ کا نام لے کر اندر جاتے ہیں اور اللہ ہی کا نام لے کر باہر نکلتے ہیں اور اللہ ہی پر جو ہمارا رب ہے بھروسہ کرتے ہیں پھر اپنے گھر والوں کو سلام کرے۔
غور فرمائیے یہ کلمات کس قدر پاکیزہ ہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے کہتا ہے کہ میرا کینال دو کینال ، ٹائیلوں ، پتھروں ، مظبوط چھتوں ، سیکیورٹی گارڈز اور سی سی ٹی وی کیمروں سے زیادہ تیری ذات پر بھروسہ ہے ۔
اسی لیے جب گھر سے نکلیں تو یہ الفاظ پڑھیں
أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْتِهِ، فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، قَالَ: يُقَالُ حِينَئِذٍ: هُدِيتَ وَكُفِيتَ وَوُقِيتَ، فَتَتَنَحَّى لَهُ الشَّيَاطِينُ، فَيَقُولُ لَهُ شَيْطَانٌ آخَرُ: كَيْفَ لَكَ بِرَجُلٍ قَدْ هُدِيَ وَكُفِيَ وَوُقِيَ .
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی اپنے گھر سے نکلے پھر کہے:
«بسم الله توكلت على الله لا حول ولا قوة إلا بالله»
اللہ کے نام سے نکل رہا ہوں، میرا پورا پورا توکل اللہ ہی پر ہے، تمام طاقت و قوت اللہ ہی کی طرف سے ہے
تو آپ نے فرمایا: اس وقت کہا جاتا ہے کہ (یعنی فرشتے کہتے ہیں ) : اب تجھے ہدایت دے دی گئی، تیری طرف سے کفایت کر دی گئی، اور تو بچا لیا گیا، ( یہ سن کر ) شیطان اس سے جدا ہو جاتا ہے، تو اس سے دوسرا شیطان کہتا ہے: تیرے ہاتھ سے آدمی کیسے نکل گیا کہ اسے ہدایت دے دی گئی، اس کی جانب سے کفایت کر دی گئی اور وہ ( تیری گرفت اور تیرے چنگل سے ) بچا لیا گیا۔
سننِ ابو داؤد # 5095
آپ اندازہ کرسکتے ہیں جو مسلمان گھروں سے نکلتے اور داخل ہوتے وقت یہ دعائیں نہیں پڑھتے وہ کس طرح رحت خداوندی سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ اسی لیے ہمیں بچوں سمیت تمام گھر والوں کو ان دعاؤں کو ہمیشہ زندگی کا حصہ بنا لینا چاہیے ۔
اگر آپ گھر آتے وقت پھل اور نفیس کھانے نہیں لا سکتے تو کوئی عیب والی بات نہیں آپ ان چیزوں سے بڑھ کر تحفہ دے سکتے ہیں ۔ آپ گھر میں داخل ہوتے وقت اونچی آواز سے تمام اھل خانہ کو السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہیں یقین کریں اس سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں ہوسکتا
ارشاد ربانی ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 24 النور
آیت نمبر 27
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُيُوۡتًا غَيۡرَ بُيُوۡتِكُمۡ حَتّٰى تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَتُسَلِّمُوۡا عَلٰٓى اَهۡلِهَا ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں داخل نہ ہو، یہاں تک کہ انسے معلوم کرلو اور ان کے رہنے والوں کو سلام کہو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
اور دوسرے مقام پر سلام کو مبارک اور پاکیزہ تحفہ قرار دیا گیا۔
القرآن – سورۃ نمبر 24 النور
آیت نمبر 61
فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُيُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِكُمۡ تَحِيَّةً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۞
ترجمہ:
جب تم کسی طرح کے گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں پر سلام کہو، زندہ سلامت رہنے کی دعا جو اللہ کی طرف سے مقرر کی ہوئی بابرکت، پاکیزہ ہے۔ اسی طرح اللہ تمہارے لیے آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم سمجھ جاؤ۔
ویسے بھی السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے ۔ اس میں سستی نہیں ہونی چاہئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرتِ انس بن مالک سے فرمایا :
قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا بُنَيَّ إِذَا دَخَلْتَ عَلَى أَهْلِكَ فَسَلِّمْ يَكُونُ بَرَكَةً عَلَيْكَ وَعَلَى أَهْلِ بَيْتِكَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”بیٹے! جب تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ تو انہیں سلام کیا کرو، یہ سلام تمہارے لیے اور تمہارے گھر والوں کے لیے خیر و برکت کا باعث ہو گا“۔
جامع ترمذی #2698
عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثَةٌ كُلُّهُمْ ضَامِنٌ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ رَجُلٌ خَرَجَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَى اللَّهِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُ، فَيُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ أَوْ يَرُدَّهُ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ وَغَنِيمَةٍ، وَرَجُلٌ رَاحَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَى اللَّهِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُ، فَيُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ أَوْ يَرُدَّهُ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ وَغَنِيمَةٍ، وَرَجُلٌ دَخَلَ بَيْتَهُ بِسَلَامٍ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین قسم کے افراد ایسے ہیں جن کا ضامن اللہ تعالیٰ ہے: ایک وہ جو اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلے، اللہ اس کا ضامن ہے یا اسے وفات دے کر جنت میں داخل کرے گا، یا اجر اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹائے گا، دوسرا وہ شخص جو مسجد کی طرف چلا، اللہ اس کا ضامن ہے یا اسے وفات دے کر جنت میں داخل کرے گا، یا اجر اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹائے گا، تیسرا وہ شخص جو اپنے گھر میں سلام کر کے داخل ہوا، اللہ اس کا بھی ضامن ہے ۔
سننِ ابی داؤد# 2494
معزز قارئین! گھروں میں سنن و نوافل ادا کرنے سے تمام نحوستیں ختم ہو جاتی ہیں اللہ تعالیٰ ان گھروں کو مبارک بنا دیتے ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا:
القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس
آیت نمبر 87
وَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلَىٰ مُوۡسٰى وَاَخِيۡهِ اَنۡ تَبَوَّاٰ لِقَوۡمِكُمَا بِمِصۡرَ بُيُوۡتًا وَّاجۡعَلُوۡا بُيُوۡتَكُمۡ قِبۡلَةً وَّاَقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ ؕ وَبَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں کچھ گھروں کو ٹھکانا مقرر کرلو اور اپنے گھروں کو قبلہ رخ بنالو اور نماز قائم کرو، اور ایمان والوں کو خوش خبری دے دے۔
اس ضمن میں ارشادات رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم بھی ہیں۔
أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ حُجْرَةً ، قَالَ : حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ : مِنْ حَصِيرٍ فِي رَمَضَانَ فَصَلَّى فِيهَا لَيَالِيَ فَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ ، فَلَمَّا عَلِمَ بِهِمْ جَعَلَ يَقْعُدُ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ ، فَقَالَ : قَدْ عَرَفْتُ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صَنِيعِكُمْ فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ ، فَإِنَّ أَفْضَلَ الصَّلَاةِ صَلَاةُ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں ایک حجرہ بنا لیا یا اوٹ ( پردہ ) بسر بن سعید نے کہا میں سمجھتا ہوں وہ بورئیے کا تھا۔ آپ نے کئی رات اس میں نماز پڑھی۔ صحابہ میں سے بعض حضرات نے ان راتوں میں آپ کی اقتداء کی۔ جب آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے بیٹھ رہنا شروع کیا ( نماز موقوف رکھی ) پھر برآمد ہوئے اور فرمایا تم نے جو کیا وہ مجھ کو معلوم ہے، لیکن لوگو! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھتے رہو کیونکہ بہتر نماز آدمی کی وہی ہے جو اس کے گھر میں ہو۔ مگر فرض نماز ( مسجد میں پڑھنی ضروری ہے ) ۔
صیح بخاری# 731
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : اجْعَلُوا فِي بُيُوتِكُمْ مِنْ صَلَاتِكُمْ ، وَلَا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا .
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے گھروں میں بھی نمازیں پڑھا کرو اور انہیں بالکل مقبرہ نہ بنا لو۔
صیح بخاری# 432
عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَضَى أَحَدُكُمْ الصَّلَاةَ فِي مَسْجِدِهِ فَلْيَجْعَلْ لِبَيْتِهِ نَصِيبًا مِنْ صَلَاتِهِ فَإِنَّ اللَّهَ جَاعِلٌ فِي بَيْتِهِ مِنْ صَلَاتِهِ خَيْرًا
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : جب تم میں سے کو ئی اپنی مسجد میں نماز ( باجماعت ) ادا کر لے تو اپنی نماز میں سے اپنے گھر کے لیے بھی کچھ حصہ رکھے کیونکہ اللہ اس کے گھر میں اس کے نماز پڑھنے کی وجہ سے خیروبھلائی رکھے گا ۔
صیح مسلم# 1822
اس وقت پریشانی کا عالم ہے ۔ ہمیں اپنے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے تلاوت قرآن مجید کو معمول بنانا ہے ۔ اس سے ھمارے گھروں پر گہرا اثر پڑے گا ۔ سب شیطان اور اسکے چیلے جو گھریلو ناچاقیوں کا باعث بنتے ہیں بھاگ جائیں گے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنْ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ شیطان اس گھر سے بھا گتا ہے جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے ۔
صیح مسلم# 1824
ایسے گھر دیکھنے میں ملتے ہیں جو بظاہر بڑے خوبصورت ، مضبوط اور عالیشان ھوتے ھیں لیکن اللہ کا ذکر نہ ہونے کی وجہ سے شیطانوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہوتے ہیں ۔ جو بدسکونی اور ٹینشن کا باعث بن جاتے ہیں
اسی لیے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
أَبَا عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا دَخَلَ الرَّجُلُ بَيْتَهُ فَذَكَرَ اللَّهَ عِنْدَ دُخُولِهِ وَعِنْدَ طَعَامِهِ قَالَ الشَّيْطَانُ لَا مَبِيتَ لَكُمْ وَلَا عَشَاءَ وَإِذَا دَخَلَ فَلَمْ يَذْكُرْ اللَّهَ عِنْدَ دُخُولِهِ قَالَ الشَّيْطَانُ أَدْرَكْتُمْ الْمَبِيتَ وَإِذَا لَمْ يَذْكُرْ اللَّهَ عِنْدَ طَعَامِهِ قَالَ أَدْرَكْتُمْ الْمَبِيتَ وَالْعَشَاءَ
ابو عاصم نے ابن جریج سے روایت کی ، کہا : مجھے ابو زبیر نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے خبر دی ، انھوں نے رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : کہ جب آدمی اپنے گھر میں جاتا ہے ، اور گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ جل جلالہ کا نام لیتا ہے ، تو شیطان ( اپنے رفیقوں اور تابعداروں سے ) کہتا ہے کہ نہ تمہارے یہاں رہنے کا ٹھکانہ ہے ، نہ کھانا ہے اور جب گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے کہ تمہیں رہنے کا ٹھکانہ تو مل گیا اور جب کھاتے وقت بھی اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے کہ تمہارے رہنے کا ٹھکانہ بھی ہوا اور کھانا بھی ملا ۔ صیح مسلم #5262
معزز قارئین! کبھی نرمی اور کبھی سختی سے گھر کو سدھارنے کی محنت کیا کریں ۔ یاد رکھیے گا! گھر چھوٹا بڑا نہیں بلکہ گھر گھر ہی ہوتا وہ جھونپڑی ہو یا ایک کمرے کا یا پھر کرائے کا ۔
اللہ تعالیٰ ھمارے گھروں پر اپنی خاص رحمتوں اور برکتوں کا نزول فرمائے ، جن کے پاس گھر نہیں انکو یہ نعمت عطا فرمائے ، ھر قسم کی پریشانیوں ، آفتوں اور مصیبتوں سے محفوظ فرمائے (آمین یارب العالمین)