548

پاکستان میں جنگلی حیات اور اس کے تحفظ

صبح آپکی آنکھ کھلتی ہے ۔ آپ اپنے کمرے میں نرم بستر پہ موجود ہیں ۔

اقصیٰ یونس: نامہ نگار (9 نیوز

آپکے پاس زندگی کی ہر سہولت موجود ہے۔ کھانے پینے کے سب سامان سے لے کر موبائل فون اور انٹر نیٹ موجود ہے آپ کو یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کو ضرویات زندگی کی ہر چیز اسی کمرے میں مہیا کی جائے گی مگر آپ ساری زندگی اب اسی کمرے میں گزاریں گے ۔ تو ایک منٹ کیلے آنکھیں بند کرکے اس صورتحال کو تصور کریں ۔

اور پھر ان پرندوں اور جنگلی حیات کا سوچیں جنہیں آپ اپنے آپ کو تھوڑی سی خوشی دینے کیلئے ساری زندگی قید رکھتے ہیں ۔
جانور اور پرندے عمومی طور پر جوڑوں یا گروہوں میں رہنا چاہتے ہیں۔ تنہائی میں وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہ ان کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اور انکی افزائش کیلئے بھی جنگلات یا چڑیا گھروں کا ماحول مناسب ہوتا ہے۔

پاکستان میں اب تک جانوروں کے حقوق پہ مناسب کام نہیں ہو ا۔ سارہ اور دیگر سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ آوارہ جانوروں کے خلاف اس قسم کی مہمات اکثر چلائی جاتی ہیں لیکن یہ وہ خبریں ہیں جو میڈیا پر کبھی نشر نہیں ہوتیں۔

ان کے مطابق پاکستان میں اب تک 1860 میں انگریزوں کا بنایا ہوا قانون ہی رائج ہے۔ “لیکن پڑوسی ملک انڈیا نے ناصرف اس قانون میں ترمیم کی بلکہ 2001 میں ایک ایسا قانون نافذ کیا جس کے تحت کتوں کی زمرہ بندی کر کے ان کو ٹیکے لگوانے کا کام بھی کیا۔ ساتھ ہی جانوروں کی صحت کے لیے حکومتی سطح پر کلینک بھی قائم کیے گئے جہاں ان کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔
اسی طرح ترکی میں بھی گلیوں میں گھومنے والے کتوں سے لیکر پالتو جانوروں کی درجہ بندی اور دیکھ بھال کا خیال رکھا جاتا ہے تاکہ عام آدمی کے انھیں خطرناک تصوّر نہ کریں ۔ برطانیہ میں بھی کتوں اور بلیوں کے حقوق کیلئے مناسب قانون سازی کی گئی ہے ۔ جس میں انکی خرید و فروخت کی اجازت تو ہے مگر انکو بیچنے کیلئے دکانوں پہ رکھنے کی اجازت نہیں ۔
کچھ جانوروں کے شکار پہ مکمل پابندی ہے جبکہ کچھ جانوروں کے شکار کی آپ وائلڈ لائف مینیجمنٹ سے اجازت لےکر شکار کر سکتے ہیں ۔ درحقیقت جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مطابق ہر سال تقریباً 10 ہزار انواع ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہیں۔
مگر ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ حقیقی تعداد حتمی طور پر نہیں معلوم کی جا سکتی کیونکہ ہمیں اب تک یہ ہی نہیں معلوم کہ دنیا بھر میں کتنی انواع پائی جاتی ہیں۔( بی بی سی کی ایک رپورٹ)
اب تک انسانوں کی اس بے حسی اور شکاریوں کےبے دریغ رویوں کی وجہ سے اب تک کتنے ہی جانور ناپید ہو چکے جن میں ڈائنوسورز، مس والڈرن کاریڈلولوبس ، بینگتسی ریور ڈولفن ، کیر یئنیین مونک سیل، ایلابامہ پگٹو ، کواگا ، ائر ش ایلک ، وائٹ ٹیل ایگل وغیرہ شامل ہیں ۔
پرندوں اور جانوروں کے شکار کے ایک نمایاں واقعے میں ایک نایاب کونج، جسے ہوڈڈ کرین بھی کہا جاتا ہے، کا بھی شکار کیا گیا جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ پہلی مرتبہ پاکستان میں داخل ہوئی تھی ( بی بی سی رپورٹ )
تو آئیں اور عہد کریں کہ جنگلی حیات کے حقوق کا خیال رکھیں گے اور اسکے زندگی کے تحفظ کو اپنی ذمےداری سمجھیں گے ۔

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں