نوکر ہی کیوں اچھا انسان کیوں نہیں؟

بچوں کو سارا بچپن یہی سمجھایا جاتا ہے کہ اچھا پڑھو تاکہ تمہیں اچھی نوکری مل سکے۔۔ تم بھی افسر بنو۔۔ بڑا گھر ہو۔۔ بڑی گاڑی ہو۔۔ یہ ہو وہ ہو۔۔ پر کیوں!!! ہم اپنی آنے والی نسل کو “نوکر “ہی کیوں بنانا چاہتے ہیں!! اچھا انسان کیوں نہیں؟!
یہ وہ سوال ہے جو میرے اپنے ذہن میں اس وقت سے ہے جب میں کالج میں تھی کیوں کہ یہ جملے میں خود کئی بار سن چکی تھی۔ ہمیشہ ایک ہی سوال آخر “نوکر” ہی کیوں!! کیا تعلیم کا مقصد ڈگری حاصل کر کے صرف کمانا ہی رہ گیا یاپھر ہم نے خود تعلیم کو صرف اچھا کمانے تک محدود کردیا ہے۔ کیوں ہم تعلیم کے ساتھ اکثر استعمال کیے جانے والے لفظ “تربیت” کو نظرانداز کر جاتے ہیں۔بظاہر دیکھنے میں تعلیم اور تربیت دو الگ چیزیں معلوم ہوتی ہیں مگر جو تعلق تعلیم و تربیت کا آپس میں ہے وہ ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہے۔ قابل غور بات تو یہ ہے کہ لفظ تعلیم جو علم سے نکلا ہے ، تربیت اسکا بنیادی مقصد ہے کیونکہ علم کو مکمل طریقے سے جان لینا اور اسے اپنی زندگی کی اونچ نیچ میں صحیح معنی میں استعمال کرنا ہی تودراصل تربیت ہے۔
پہلے یہ سمجھا جاتا رہا کہ تعلیم کو عام کرنا چاہیے تا کہ ہمارے مسائل خود بہ خود حل ہوجائیں پر یہ نہ سمجھ پائے کہ حل صرف معاشی مسائل ہوں گے، معاشرتی نہیں۔اور پھرعموما ایسے کچھ جملے سننے میں آنے لگے کہ “پڑھ لکھ کے بھی کچھ نہ سیکھ پائے۔ یا پڑھا لکھا جاہل۔یاکیا فائدہ تمہاری تعلیم کا” دراصل اس سب میں کہیں نہ کہیں ہم اس حقیقت کا لاشعوری طور پہ اطراف کرتےرہے کہ تربیت کی کمی ہے۔آج پاکستان میں ہی نظر ثانی کر لی جائے تو کون سا ایسا ادارہ ہے جہاں آپ بدتمیزی اور بد اخلاقی نہ دیکھ پائیں چاہے وہ تعلیم کا میدان ہو جہاں طالب علموں کو استاتذہ کی ہی عزت کرنا نہیں آتی، یا پھر پولیس کا محکمہ ہو جہاں ہر کسی کی عزت نفس کو پامال کیا جاتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کہیں ہم اس تعلیم کو نوکر و مالک اور کمانے تک محدود کر کے نادانست اور اَن پڑھ معاشرے کو جنم تو نہیں دے رہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم انسان کو ایک اچھا ڈاکٹر ،ایجئینر، چارٹرڈ اکائنٹنٹ تو بنا سکتی ہے جس میں خوب پیسہ بھی ملے گا اور شہرت بھی آپ کے قدم چومے گی لیکن آپ خود کوصرف تعلیم پر منحصر کرکے ایک اچھے انسان ہر گز نہیں بن سکتے جو اس معاشرے کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکے اور ہر شعبے بلکہ ہر انسان کی قدرکیسے کرنی ہے بخوبی جانتا ہو۔
ہم تعلیم کے اصل مقصد جو کہ انسانی نشونما ہے (جس میں ذہنی ، روحانی اور جسمانی تینوں شامل ہیں ) سے ہٹ گئے اسی لیے ہر گزرتی گھڑی کے ساتھ زمانہ جہالیت میں واپس جاتے جا رہے ہیں۔ اس سب سے نمٹنے کے لیے دو کردار بہت اہم گردانے جانے جاتے ہیں ایک والدین کا کیوں کہ بچے کی پہلی درس گاہ ہی اسکا گھر اور اسکی ماں کی گود ہوتی ہے پھر دوسرا اساتذہ کا جن کے پاس بچہ گھر کے بعد سب سے زیادہ وقت گزارتا ہے۔ میری اب تک کی زندگی کے مطالعہ کے مطابق اساتذہ والدین سے بھی زیادہ بچوں کی نشو و نما اور پرسنیلیٹی پہ اثر انداز ہوتے ہیں مگر استاد کا اصل کردارمحض چند کتابیں اور کورس سے متعلق شاگرد کو علم دینا ہی نہیں بلکہ استاد تو وہ ہے جو اپنے شاگرد کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرے ، انہیں زندگی کا مقصد بتائے اور اسے گزارنے کا شعور دے، اسے عزت دینا اور لینا سیکھائے اور اسے اچھا انسان بنائے جو مستقبل میں معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرے سکے ۔مگر افسوس تو اس بات کا ہے ہم نے تعلیم کو محض چند کتابوں کے رٹے لگانے اور مارک شیٹ تک محدود کر دیا ہےجس سے یقینا بچے کا حافظہ تو تیز ہو سکتا اور ہو سکتا اسی بیس پہ اسے ایک اچھی نوکری بھی مل جائے اور خوب پیسہ بھی کما لے زندگی میں لیکن !! لیکن کیا وہ کبھی ایک اچھا انسان بھی بن پائے گا؟ وہ تعلیم جس کا بنیادی مقصد ہی تعمیر انسانی تھا وہ اب صرف نوکری تک محدود ہوتی جا رہی ہے! تو پھر یہ سوال تو بنتا ہے نہ ” نوکر ہی کیوں اچھا انسان کیوں نہیں؟!”