
منشیات سمگلنگ کے مذموم دھندے میں ملوث رانا ثناءاللہ کو ضمانت پر رہا کرنے کی سازش
پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جہاں پر غریب کو انصاف کیلیے سال ہا سال در در کی ٹھوکریں کھانی پڑھتی ھیں، اورجس کےلیے لاکھوں روپے کا مقروض ہونا پڑتا ہے- لیکن انصاف کے حصول کےلیے لڑتے لڑتے وہ اپنی زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔ دوسری طرف امراء اور بااثر سیاستدان اور جاگیر دار عدالتوں کو اپنی گھر کی باندی بنا کر رکھتے ہیں۔ جن سے وہ جب چاہے اپنی مرضی کے فیصلے لکھواتے ھیں۔ قریب چھ ماہ ہونے کو ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے غنڈہ صفت راہنماء رانا ثناءاللہ کو منشیات کی بھاری مقدار کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔لیکن آج تک موصوف کا کیس ٹرائل شروع نہیں ھوسکاجس کی وجوہات روز روشن کی طرح عیاں ہے،اور یہ ہمارے انصاف کے نظام پر سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ انتہاہی با خبر ذرائع کے مطابق حال ہی میں تعینات شدہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جناب چودھری مشتاق احمد نے رانا ثنا ءاللہ کی بیگم صا حبہ کے ساتھ ڈی-ایچ-اے فیز -۸، لاھور کے ایک گھر میں ملاقات کی ہے جس دوران یہ طے پایا ھے کہ رانا صاحب لاھور ہائی کورٹ سے چودھری مشتاق صاحب کے ذریعے ضمانت پر عنقریب رہا کردیے جاینگے۔ اور مذکورہ جسٹس صاحب رانا صاحب کے ماضی کے احسانات کا بدلہ چکا ئنگے
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جسٹس چودھدری مشتاق صاحب کے ایک قریبی رشتہ دار کے اوپر NAB کا کیس چل رہا ہے-جسکی وجہ سے موصوف تفتیشی اداروں اور حکومت سے خصوصی عناد رکھتے ہیں علاوہ ازایں رانا ثناءاللہ صاحب کے قریبی رفقاء اور رشتہ داران بھاری رقوم کے عوض اے-این-ایف اور عدلیہ کے اھلکاروں کی وفاداریاں خریدنے کی کوششیں کررھے ہیں
کیا یہ انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ کیا یہ انصاف مہیا کرنے کیلیے قائم شدہ ادارے پر سوالیہ نشان نہیں۔
کیا اس ملک میں سزا کا تصور صرف اور صرف غریب کے ساتھ جڑا ھوا ہے۔
اور آخری بات یہ کہ اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کےلیے اے-این-ایف جیسے غیر سیاسی ادارے کو سیاست میں گھسیٹا گیا اور گھسیٹا جارھا ہے جو کہ انتہائی نا مناسب عمل ہے-
اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔آمین