
شاہ دولہ (ضلع گجرات) کے مزار کے بارے میں مشہور ہے کہ جو خاندان بے اولاد ہوتا ہے یا اولاد ہوتی ہے اور مر جاتی ہے ، تو وہ مزار پر منت مانتا ہے اور مراد پوری ہونے کی صورت میں وہ پہلی اولاد مزار پر موجود افراد کے حوالے کر دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ دولہ کے مزار پر منت ماننے والوں کے ہاں جو پہلا بچہ پیدا ہوتا ہے وہ ذہنی طور پر تقریباً معذور ہوتا ہے، اس کا سر بالکل چھوٹا ہوتا ہے جبکہ شکل چوہوں سے ملتی جلتی ہے اور اگر کوئی عورت منت پوری ہونے کے بعد اپنی پہلی اولاد کو اس مزار کی نذر نہ کرے تو پھر ساری عمر اس عورت کے ہاں ایسے ہی بچے پیدا ہوتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جو والدین کم علمی یا کمزور عقیدے کے سبب اپنے بچوں کو بطورِ عقیدت مزار پر موجود بھکاری مافیا کے حوالے کر دیتے ہیں وہ ایسے بچوں کے سروں پر ایک مخصوص ٹوپی نما شکنجہ (لوہے کی ٹوپیاں)چڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ان کے سروں کی نشوونما رُک جاتی ہے بلکہ ان کی دماغی اور جسمانی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے اور پھر یہ بچے رفتہ رفتہ ذہنی طور پر معذور ہو جاتے ہیں۔ اب ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہ جاتا ہے جو کہ بھیک مانگنا، کھانا اور پھر بھیک مانگنا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہتے اور نہ ہی زندگی کی بھاگ دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں۔
ساٹھ کے عشرے میں حکومت نے یہ مزار سرکاری تحویل میں لے کر یہاں ایسے بچے لینے پر پابندی لگا دی تھی لیکن شاہ دولہ کے پاکستان میں بھکاری مافیا شاہ دولہ کے چوہوں کا استحصال کرتے ہوئے نہ صرف ان سے شہر شہر، گاﺅں گاﺅں بھیک منگواتا ہے بلکہ پیشہ ور بھکاری اِن بچوں کو ماہانہ ٹھیکوں پر بھی لے جاتے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا باقاعدہ کنٹریکٹ ہوتا ہے اور پھر جب کنٹریکٹ کی مدت ختم ہو جاتی ہے تو انہیں واپس دربار پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس طرح ملک کے کونے کونے میں یہ بچے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
یہ انسانیت سے گری ہوئی مافیا ان معصوم بچوں کا ساری عمر استحصال کرتی ہے اس
کے لیے یکجاں ہو کر آواز اٹھانی چاہیے یہ وہ لوگ ہیں جن کا کوئی نہیں ہوتا اور اگر ماں باپ پڑھے لکھے نہیں تو پاکستان کی عوام تو پڑھی لکھی ہے.