447

روزہ کا مقصد


مہمان کالم:حافظ شاھد محمود
کامونکی

یقیناً رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو عطا فرمائی ۔ الحمدللہ رمضان المبارک بہت
سی فضیلتوں کے ساتھ ھمارے اوپر سایہ فگن ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ رمضان المبارک کا تصور ہی اھل اسلام کو نہال کر دیتا ہے ۔ اسکے گنتی کے دن ہوتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا بس یوں ہی ختم ہو جاتے ہیں جیسے اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة
آیت نمبر 184
اَيَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍؕ
ترجمہ:
گنے ہوئے چند دن
جس طرح ہر کام کا کوئی نا کوئی مقصد ہوتا ہے اسی طرح رمضان المبارک کا مقصد بھی کمال کا ہے ۔ یہ مسلم امہ کی ٹریننگ کرواتا ہے جس میں تقویٰ کا بہت بڑا مقصد پنہاں ہے
اسی لیے اللہ تعالٰی نے اعلان فرمایا

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة
آیت نمبر 183

يٰٓـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُتِبَ عَلَيۡکُمُ الصِّيَامُ کَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَۙ ۞

ترجمہ:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا گیا ہے، جیسے ان لوگوں پر لکھا گیا جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم بچ جاؤ۔

تقویٰ بہت بڑا پہلو ہے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو رمضان المبارک کے روزے رکھنے کا حکم دیتے ہیں جو خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کھانے پینے سے رکنا روزہ کہلاتا ہے ۔
روزہ سے دلوں میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے اور دل برے خیالات اور رزیل احساسات سے پاک ہو جاتا ہے لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف کھانا پینا چھوڑنا ھی روزہ ہے یا اللہ رب العزت روزہ سے انسان کی اور چیز بہتر کرنا چاہ رہے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَۙ تا کہ تم متقی بن جاؤ
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ روزے کا مقصد حقیقی یہی ہے کہ روزہ دار تقویٰ کی خوبی سے آراستہ ہو جائیں بلا شبہ روزہ نگاہ کو نیچا رکھنے اور شرم گاہ کی حفاظت کا باعث بنتا ہے اور یہ شیطانی خیالات ، غصیلے احساسات اور شہوانی جذبات کو کچلتا ہے ۔
روزہ انسانی خواہشات ، احساسات اور خیالات کا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر دیتا ہے ۔ روزہ دار شیطان کو مغلوب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں بچ بچ کے زندگی گذارتا ہے ۔
جس طرح پہاڑوں پر سفر کرتے ہوئے گاڑی کو نہایت احتیاط سے بل کھاتی سڑک پر کھائیوں سے بچا کر سیدھی منزل کی طرف رواں دواں ہونے والا ڈرائیور کامیابی کے ساتھ منزل پر پہنچ جاتا ہے بے عین ہی اسی طرح گناہوں کی دلدل اور کھائیوں سے دور رہتے ہووے اپنا دامن صراط مستقیم کی طرف رکھنا تقویٰ کہلاتا ہے
تقویٰ روزے سے حاصل ہوتا ہے تقویٰ کا حصول کامیابیوں میں سے سب سے بڑی کامیابی ہے ۔
جو روزہ دار کھنا پینا چھوڑے لیکن فضولیات نہیں چھوڑتا مثلاً جھوٹ ، چغلی ، غیبت ، بہتان ، اور بلا تحقیق بیان بازی آنکھ ، کان ، ہاتھ اور جسم کے گناہ ایسے روزے کی اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں ۔

اسلامی روزے کا مقصد نفس کو عذاب دینا نہیں بلکہ دل میں تقویٰ یعنی بچنے کی عادت پیدا کرنا ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے صبح سے شام تک ان حلال چیزوں سے بچے گا تو وہ ان چیزوں سے جو ہمیشہ کے لیے حرام ہیں، ان سے روزہ کی حالت میں بدرجۂ اولیٰ بچے گا۔ اس طرح روزہ گناہوں سے بچنے کا اور بچنے کی عادت کا ذریعہ بن جاتا ہے اسی لیے
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ
” روزہ (گناہوں اور آگ سے) ڈھال ہے۔ “ [ بخاری، الصیام، باب فضل الصوم : ١٨٩٤ ]
اور فرمایا :
” جو شخص جھوٹی بات اور اس پر عمل نہ چھوڑے اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ “
[ بخاری، الصیام، باب من لم یدع قول الزور : ١٩٠٣
عن أبی ہریرۃ (رض) ]
روزہ رکھ کر نماز نہ پڑھنے والے، جھوٹ بولنے والے، لڑائی جھکڑے کرنے والے ، دھوکا دینے والے، سارا دن ٹی وی اور موبائیل پر کان اور آنکھ کے زنا میں مصروف رہنے والے، غرض کسی بھی نافرمانی کا ارتکاب کرنے والے سوچ لیں کہ انھیں روزہ رکھنے سے کیا ملے گا ؟

9news
Follow
Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں