حافظ شاھد محمود
کامونکی گوجرانولہ
کروناوائرس نے پوری دنیا کا نظام روک دیا،ہر شخص خوف زدہ ہے،ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوچکے ہیں،یہ وقت توبہ واستغفار کا ہے،تبصرے تجزیے میں سمجھتا ہوں کہ ان سے نکل کر کچھ اور سوچنا چاہیے ۔ مت یہ بات کہیے کہ حکمرانوں نے مساجد کے دروازے بند کردیے، وہ بے بس ہیں، یہ آزمائش اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
آئیے اس ربﷻ کو منالیں یہ راستے اس ربﷻ نے بند کیے ہیں۔ اسکو راضی کر کے ان راستوں کو کھول لیں۔یہ کاروبار کی بندشیں اس رب کی طرف سے ھیں۔
آئیں اس کی بارگاہ میں رجوع کر کے اپنی زندگیاں آسان کر لیں۔وہ مان گیا تو ایک دن میں سارے مسئلے حل ہوجائیں گے۔کہا جا رہا ہے 18 مہینوں سے لیکر 2سال تک اس ساری کیفیت میں انسانیت رہ سکتی ہے۔
موسیٰ علیہ السلام نے بارش کے لیے اللہﷻ سے دعا کی، اللہﷻ نے کہا! اے موسیٰ تیری مجلس میں ایک بندہ ھے ۔ اس بندے کے گناہ کی وجہ سے بارش رکی ہوئی ہے۔اگر وہ اٹھ کر چلا جائے تو بارش شروع ہو جائے گی۔ موسیٰ علیہ السلام نے اعلان کیا لوگوں تمھارے اندر ایک گنہگار شخص ہے جس کی وجہ سے بارش نہیں ہورہی لہذا وہ شخص مجلس سے اٹھ کر چلا جاۓ، جیسے ہی یہ اعلان ہوا اس شخص نے اپنے ربﷻ سے کہا یا اللّٰہ تو نے آج تک میرا پردہ رکھا، کیا تو آج میرے گناہ ظاہر کردے گا، میں تیرا بندہ ہوں، میں تجھ سے سچی توبہ کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ تیری اطاعت کروں گا،اس کی توبہ پر اللہﷻ نے بارش برسا دی اور اس کو اپنے بندوں پر ظاہر بھی نہیں کیا اس کی سچی توبہ کے باعث۔
مجھے آج مسجدوں کی ویرانی پر بڑا افسوس ہے۔ حرم مکی و مدنی بھی بند ہیں اللہ تیرے بندے جائیں تو کہاں جائیں.
میں سمجھتا ہوں کہ شاید وہ گناہ گار میں ہوں جسکی وجہ سے یہ حالات ہیں۔ مجھے اپنے اللہﷻ سے توبہ طلب کرنی چاہیے۔بالکل اسی بندے کی طرح جس نے کہا تھا یا اللّٰہ مجھے تو آج رسوا نہ کرنا ۔
میرے بھائیوں اللہﷻ کی بارگاہ کی طرف رجوع کریں اس سے توبہ طلب کریں، اور اس سے یہ بات کہیں یااللّٰہ کیا تو دنیا میں ہمیں اکیلا چھوڑ دے گا۔
اللھم انت ربھا و نحن العباد
اے اللہ تو ھمارا رب ہے ھم تیرے بندے ہیں۔
اگر ربﷻ کے بن کے چلے گئے اور اس آزمائش میں موت بھی آگئی تو سرخرو اور کامیاب ہیں ۔ اور اگر ربﷻ کے نہ بن سکے اس نے ہمیں آزمائش سے نکال بھی دیا تو یاد رکھئیے گا ناکامی کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس لیے آئیے اس ربﷻ کی بارگاہ کی جانب رجوع کریں۔
جس طرح موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے فرد نے معافی مانگی ۔
اللہ رب العزت کی رحمت بے انتہا ہے بس اس کو پکارنے کی دیر ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر
آیت نمبر 53
قُلۡ يٰعِبَادِىَ الَّذِيۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَةِ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِيۡعًا ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ ۞
ترجمہ:
کہہ دے اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ! اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ، بیشک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے۔ بیشک وہی تو بےحدبخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
ھمارے گناہ ھی اس قدر ہیں ھمیں اللہﷻ سے مانگتے ہوئے شرم آتی ہے جبکہ اللہﷻ اپنے بندے کی اپنی بارگاہ کی جانب رجوع کو پسند فرماتا ہے۔
ھمارے اوپر جو طرح طرح کے عذابات مسلط ہو رہے ہیں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہﷻ ناراضگی کی حالت میں اپنی طرف بلا لے۔قبل اسکے کہ موت آجائے یا سورج مغرب سے طلوع ہوگیا تو پھر ربﷻ کو منانے کا گولڈن چانس ہاتھ سے نکل جائے گا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «المرء مع من أحب يوم القيامة» ”جو شخص جس شخص سے زیادہ محبت کرتا ہے قیامت کے دن وہ اسی کے ساتھ رہے گا“۔
مغرب کی طرف میں ایک ایسے دروازے کا ذکر کیا جس کی چوڑائی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے ( راوی کو شک ہو گیا ہے یہ کہا یا یہ کہا ) کہ دروازے کی چوڑائی اتنی ہو گی ؛ سوار اس میں چلے گا تو چالیس سال یا ستر سال میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچے گا، سفیان ( راوی ) کہتے ہیں: یہ دروازہ شام کی جانب پڑے گا، جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے تبھی اللہ نے یہ دروازہ بھی بنایا ہے اور یہ دروازہ توبہ کرنے والوں کے لیے کھلا ہوا ہے اور توبہ کا یہ دروازہ اس وقت تک بند نہ ہو گا جب تک کہ سورج اس دروازہ کی طرف سے طلوع نہ ہونے لگے۔
Jam e Tirmazi Hadees # 3535
جس نے بغیر توبہ کیے صبح و شام کی وہ خطرے میں ہے ۔ اسے یہ خوف دامن گیر ھونا چاھئے کہ کہیں بغیر توبہ اللہ سے ملاقات نہ ہوجائے کہیں اسکا شمار ظالموں میں سے نہ ہوجائے
ارشاد باری تعالیٰ ہے
القرآن – سورۃ نمبر 49 الحجرات
آیت نمبر 11
وَمَنۡ لَّمۡ يَتُبۡ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور جس نے توبہ نہ کی سو وہی اصل ظالم ہیں۔
پلٹ آئیں یونس علیہ السلام کی قوم کی طرح
سیدنا یونس علیہ السلام نے دن رات اپنی قوم کو دعوت دی مگر وہ مسلسل انکار کرتے رہے ۔ تو بالآخر قوم کو اللہ سے ڈراتے ہوئے یونس علیہ السلام نے بددعا کی اور یہ کہتے ہوئے وادی سے نکل گئے کہ تین دن بعد عذاب آئے گا ۔ قوم نے جب عذاب کے آثار محسوس کیے تو انکے دل حقیقت میں ڈر گئے وہ مارے خوف اور دہشت کے کانپنے لگے وہ بال بچوں اور مویشیوں کے کو لیکر صحرا کی طرف کھلے میدان میں نکل گئے ماؤں اور بچوں کو الگ کر دیا اور گریہ زاری کے ساتھ توبہ کرنے لگے ۔
یونس علیہ السلام کی سچائی کا اقرار کرتے ہوئے ایمان لے آئے ۔انکی مجموعی توبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کرتے ہوئے عذاب ٹال دیا چنانچہ ارشاد ہوا
القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس
آیت نمبر 98
فَلَوۡلَا كَانَتۡ قَرۡيَةٌ اٰمَنَتۡ فَنَفَعَهَاۤ اِيۡمَانُهَاۤ اِلَّا قَوۡمَ يُوۡنُسَ ۚؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوۡا كَشَفۡنَا عَنۡهُمۡ عَذَابَ الۡخِزۡىِ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَمَتَّعۡنٰهُمۡ اِلٰى حِيۡنٍ ۞
ترجمہ:
سو کوئی ایسی بستی کیوں نہ ہوئی جو ایمان لائی ہو، پھر اس کے ایمان نے اسے نفع دیا ہو، یونس کی قوم کے سوا، جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے ذلت کا عذاب دنیا کی زندگی میں ہٹا دیا اور انھیں ایک وقت تک سامان دیا۔
توبہ کیجئے ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ اور خامدی قبیلے کی عورت کی طرح
ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا : اے اللہ کے رسول! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے ، میں نے زنا کا ارتکاب کیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپﷺ مجھے گناہ کی آلودگی سے پاک کر دیں ۔ آپﷺ نے انہیں واپس بھیج دیا ، جب اگلا دن ہوا ، وہ آپﷺ کے پاس آئے اور کہا : اے اللہ کے رسولﷺ! میں نے زنا کیا ہے ۔ تو آپﷺ نے دوسری بار انہیں واپس بھیج دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قوم کی طرف پیغام بھیجا اور پوچھا : کیا تم جانتے ہو کہ ان کی عقل میں کوئی خرابی ہے ، ان کے عمل میں تمہیں کوئی چیز غلط لگتی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا : ہمارے علم میں تو یہ پوری عقل والے ہیں ، جہاں تک ہمارا خیال ہے ۔ یہ ہمارے صالح افراد میں سے ہیں ۔ وہ آپﷺ کے پاس تیسری بار آئے تو آپﷺ نے پھر ان کی طرف اسی طرح پیغام بھیجا اور ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ان میں اور ان کی عقل میں کوئی خرابی نہیں ہے ، جب چوتھی بار ایسا ہوا تو آپﷺ نے ان کے لیے ایک گڑھا کھدوایا ، پھر ان کو رجم کرنے کے بارے میں حکم دیا تو انہیں رجم کر دیا گیا ۔
اس کے بعد غامد قبیلے کی عورت آئی اور کہنے لگی : اے اللہ کے رسولﷺ! میں نے زنا کیا ہے ، مجھے پاک کیجئے ۔ آپﷺ نے اسے واپس بھیج دیا ، جب اگلا دن ہوا ، اس نے کہا : اے اللہ کے رسولﷺ! آپ ﷺ مجھے واپس کیوں بھیجتے ہیں؟ شاید آپﷺ مجھے بھی اسی طرح واپس بھیجنا چاہتے ہیں جیسے ماعز رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا ، اللہ کی قسم! میں حمل سے ہوں ۔ آپ نے فرمایا : اگر نہیں مانتی ہو تو جاؤ حتی کہ تم بچے کو جنم دے دو ۔ کہا : جب اس نے اسے جنم دیا تو بچے کو ایک بوسیدہ کپڑے کے ٹکڑے میں لے کر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا : یہ ہے ، میں نے اس کو جنم دے دیا ہے ۔ آپ نے فرمایا : جاؤ ، اسے دودھ پلاؤ حتی کہ تم اس کا دودھ چھڑا دو ۔ جب اس نے اس کا دودھ چھڑا دیا تو بچے کو لے کر آپﷺ کے پاس حاضر ہوئی ، اس کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا ، اس نے کہا : اے اللہ کے نبیﷺ! میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے اور اس نے کھانا بھی کھا لیا ہے ۔ ابھی اس کی مدت رضاعت باقی تھی ۔ ایک انصاری نے اس کی ذمہ داری اٹھا لی تو آپﷺ نے بچہ اس انصاری کے حوالے کیا ، پھر اس کے لیے گڑھا کھودنے کا حکم دیا تو سینے تک اس کے لیے گڑھا کھودا گیا اور آپﷺ نے لوگوں کو حکم دیا تو انہوں نے اسے رجم کر دیا ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک پتھر لے کر آگے بڑھے اور اس کے سر پر مارا ، خون کا فوارہ پھوٹ کر حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے چہرے پر پڑا تو انہوں نے اسے برا بھلا کہا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے برا بھلا کہنے کو سن لیا تو آپ نے فرمایا : خالد! ٹھہر جاؤ ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ناجائز محصول لینے والا جو ظلما لاتعداد انسانوں کا حق کھاتا ہے ایسی توبہ کرے تو اسے بھی معاف کر دیا جائے ۔
پھر آپ نے اس کے بارے میں حکم دیا اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور اسے دفن کر دیا گیا۔
Sahih Muslim Hadees # 4432
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص تھا اس نے ننانوے قتل کیے ، پھر اس نے زمین پر بسنے والوں میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا اسے ایک راہب کا پتہ بتایا گیا ۔ وہ اس کے پاس آیا اور پوچھا کہ اس نے ننانوے قتل کیے ہیں ، کیا اس کے لیے توبہ ہے؟ اس نے کہا : نہیں ۔ تو اس نے اسے بھی قتل کر دیا اور سو قتل پورے کر لیے ۔ اس نے پھر اہل زمین میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا ۔ اسے ایک عالم کا پتہ بتایا گیا ۔ تو اس نےکہا :میں نے سو قتل کیے ہیں ، کیا اس کے لیے توبہ کا امکان ہے؟ اس عالم نے کہا : ہاں ، اس کے اور توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ تم فلاں فلاں سرزمین پر چلے جاؤ ، وہاں ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ، تم بھی ان کے ساتھ اللہ کی عبادت میں مشغول ہو جاؤ اور اپنی سرزمین پر واپس نہ آو ، یہ بُری سرزمین ہے ۔ وہ چل پڑا ، یہاں تک کہ جب آدھا راستہ طے کر لیا تو اسے موت نے آ لیا ۔ اس کے بارے میں رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے ۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا : یہ شخص توبہ کرتا ہوا اپنے دل کو اللہ کی طرف متوجہ کر کے آیا تھا اور عذاب کے فرشتوں نے کہا : اس نے کبھی نیکی کا کوئی کام نہیں کیا ۔ تو ایک فرشتہ آدمی کے روپ میں ان کے پاس آیا ، انہوں نے اسے اپنے درمیان ثالث مقرر کر لیا ۔ اس نے کہا : دونوں زمینوں کے درمیان فاصلہ ماپ لو ، وہ دونوں میں سے جس زمین کے زیادہ قریب ہو تو وہ اسی میں سے ہو گا ۔ انہوں نے مسافت کو ماپا تو اسے اس زمین کے قریب تر پایا جس کی طرف وہ جا رہا تھا ، چنانچہ رحمت کے فرشتوں نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔
قتادہ نے کہا : حسن بصری نے کہا : اس حدیث میں ہمیں بتایا گیا کہ جب اسے موت نے آ لیا تھا تو اس نے اپنے سینے سے گھسیٹ کر خود کو گناہوں بھری زمین سے دور کر لیا تھا۔
Sahih Muslim Hadees # 7008
ھمیں ان مثالوں کو سامنے رکھ کر توبہ النصوح کرنی چاہیے کیونکہ توبہ واستغفار سے عذاب رک جاتا ہے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے
القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال
آیت نمبر 33
وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمۡ وَاَنۡتَ فِيۡهِمۡؕ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمۡ وَهُمۡ يَسۡتَغۡفِرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ انھیں عذاب دے، جب کہ تو ان میں ہو اور اللہ انھیں کبھی عذاب دینے والا نہیں جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔
صبح و شام توبہ ان الفاظ سے کرنی چاہیے۔
حدیث نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ملاحظہ فرمائیں
عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى سَيِّدِ الِاسْتِغْفَارِ؟ اللهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ (وَاْبْنُ عَبْدِكَ) وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ وَأَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ وَأَعْتَرِفُ بِذُنُوبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ. لَا يَقُولُهَا أَحَدٌ حِينَ يُمْسِي إِلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ.
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں سید الاستغفار کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ اے اللہ تو ہی میرا رب ہے، تیرے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں۔ تو نےہی مجھے پیدا کیا ہے ،میں تیرا بندہ ،اور تیرے بندے کا بیٹا ہوں،جتنی مجھ میں طاقت ہے، میں تیرے عہداور وعدےپرقائم ہوں۔ جو میں نے کام کئے ان کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔میں خود پر تیری عطا کردہ نعمت کا اقرار کرتا ہوں ۔اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں ۔میرے گناہ بخش دے ،کیوں کہ کوئی گناہ نہیں بخش سکتا سوائے تیرے۔جو کوئی بھی شام کے وقت یہ کلمات کہے گا اس کے لئے جنت واجب ہو جائے گی۔
Al-Silsila-tus-Sahiha Hadees # 2786
آخری حدیث میں تو گنہگاروں کے لیے مسرت کا ساماں ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے«أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه» کہا تو اس کے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے اگرچہ وہ میدان جنگ سے بھاگ گیا ہو ۔
Sunnan e Abu Dawood Hadees # 1517
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہﷻ ھمارے گناہ معاف فرما کے اس عذاب کو ٹال دے ( آمین )
بہت اچھا مضمون لکھا ہے۔ جزاک اللہ خیر
حافظ صاحب آپ ہمیشہ بہت اچھا لکھتے ہیں
جزاک اللہ خیر