549

دوراہا….!

‏دوراہا….!

نامہ نگار: بشارت محمود رانا

‏دوراہا عام طور پہ ایک ایسے مقام یا جگہ کو کہا جاتا ہے کہ جہاں انتخاب کرنے کے لیے آپ کے سامنے دو راستے ہوں اور اپنے سفر کو جاری و ساری رکھنے کے لیے آپ کو اُن میں سے کسی ایک راستے کو چُننا ہوتا ہو۔

‏جیساکہ اللہ تعالی نے حضرتِ انسان کو اشرف المخلوقات اور مکمل طور پہ بااختیار بنا کر اس دنیا میں بھیجا ہے۔ پھر اسی انسان کو سیدھی اور غلط راہ کی پہچان کروانے کے لئے اپنے نبی و رسول مبعوث فرمائے اور اپنے اِن اَنبیاء و رسولوں کے زریعے انسان کو بتلایا کہ کونسا راستہ صحیح ہے اور کونسا راستہ غلط ہے۔

‏تو جو سیدھے راستے پہ چلیں گے ان کے لیے جنت کی بشارت ہے اور جو غلط اور بدی کا راستہ اختیار کریں گے انہیں جہنم کی ہولناکیوں سے بھی ڈرایا ہے۔ اب یہ خود حضرتِ انسان پہ منحصر ہے کہ وہ اپنے لئے اِن دونوں راستوں میں سے کوئی بھی راستہ اختیار کر لے اور اِس کی اسے سزا یا جزا آخرت میں ضرور ملے گی۔

‏تو زندگی کے اِس سفر میں چاہے آپ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی کے بارے میں بات کر لیں، آپ کو اپنے کام کو سر انجام دینے کے لیے اپنے سامنے ہمیشہ دو ہی راستے نظر آئیں گے۔

‏اور آپ اِن میں سے کسی راستے کو بھی چننے کے لیے بااختیار ہوتے ہیں کہ آپ نے کونسے راستے کا انتخاب کرنا ہے۔ البتہ! اُن میں سے ایک راستہ صحیح یعنی نیکی اور صراطِ مستقیم کا راستہ ہو گا، جبکہ دوسرا راستہ غلط، گناہ اور بدی کا راستہ ہو گا۔

‏اور اِن دونوں راستوں میں جو راستہ صحیح اور نیکی کا راستہ ہو گا وہ طویل اور انتہائی کٹھن راستہ ہو گا، جس پہ چلتے ہوئے آپ کو ہمیشہ بے شمار مشکلات، پریشانیوں، مصیبتوں اور یہاں تک کہ بعض واقعات تو لوگوں کے طعنوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن! اگر آپ اپنے عمل، عقیدے اور اللہ تعالی پہ اپنے یقین میں پختہ ہوں گے تب ہی آپ اِس راستے پہ چل پائیں گے اور اگر خدانخواستہ کہیں بھی آپ کمزور پڑیں گے تو فوراً سے پہلے بھٹک جائیں گے۔

‏جِیساکہ! اگر ہم بطور مسلمان بھی اپنی زندگی کے اِس سفر کو دیکھیں تو اِس میں بھی آپ کو دو ہی آپشن ملیں گے۔
‏جن میں سے ایک راستہ وہ ہے جو کہ دِکھنے میں بے شمار آسائشوں، موج و مستیوں، طرح طرح کی عیاشیوں اور عیش و عشرت کے لوازمات سے بھرا ہوا ہوتا ہے، لیکن یہ راستہ انسان کے سب سے بڑے دشمن شیطان کو خوش کرنے والا راستہ ہے اور یہاں آپ کو صرف شیطان کی پیروی کرنے والے بھٹکے ہوئے اور گناہوں میں پڑے ہوئے لوگ ہی ملیں گے اور بلاشبہ یہی جہنم کی طرف لے جانے والا راستہ ہے۔

‏جبکہ! اس کے بالکل برعکس دوسرا راستہ انتہائی کٹھن، دشوار گزار، طرح طرح کی مشکلوں پریشانیوں، مصائب و آلام، لوگوں کے طعنوں اور آپ کے صبر و تحمل کا ایک بہت بڑا امتحان بھی ہوتا ہے۔ اور بلاشبہ یہی راستہ نبیوں و رسولوں کا ہمیں بتلایا ہوا اور اللہ کے ولیوں و درویشوں کا راستہ ہے اور یہی وہ راستہ ہے جو اس انسان کو جنت کی طرف لے جانے والا ہے۔

‏ اور آپ کو اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے یہ دو راستے ہی ملیں گے، اِن کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہیں ملے گا۔ اور ایسا بھی ہرگز نہیں ہو گا کہ آپ چاہیں کہ منزل تک پہنچنے کے لیے کبھی ایک راستے کا استعمال کر لیں اور کبھی دوسرے راستے پر چل پڑیں۔ آپ یا تو خیر کے داعی ہو سکتے ہیں یا پھر شَر کے عنصر میں لپٹے ہوئے شیطان کا ایک کِھلونا۔

‏اِسی حوالے سے حضور اقدس جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیثِ مبارکہ بھی بیان کرتا چلوں وہ یہ کہ

‏”جب اللہ تعالی نے حضرت جبرائیلِ امین (ع) کو بنایا اور تب تک اللہ تعالی نے کائنات کی کوئی شے نہیں بنائی تھی، تو حضرت جبرائیلِ (ع) کو جِلا بخشنے کے بعد اللہ تعالی نے حکم دیا کہ جا کر ایک بار جنت اور دوزخ کو دیکھ کر آو تو جنت کو دیکھنے کے بعد حضرت جبرائیل (ع) نے عرض کی کہ اے ربِ عظیم ایسا بھی کوئی ہو گا جو یہاں نہ آنا چاہے گا؟

‏کہ اتنی خوبصورت اور حسین و جمیل ہے یہ جنت، تب اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اب اِس میں آنے کے لیے بنایا ہوا راستہ بھی دیکھو، تو راستہ دیکھنے کے بعد حضرت جبرائیل (ع) بولے کہ یا اللہ ایسا کون ہو سکتا ہے جو اِتنے کٹھن، دشوار گزار اور مشکل راستے سے ہو کر یہاں پہنچ سکے گا؟

‏اس کے بعد پھر ایسے ہی اللہ تعالی نے حضرت جبرائیلِ امین (ع) کو جہنم کو دیکھنے کا حکم دیا، تو جہنم کو دیکھنے کے بعد حضرت جبرائیل (ع) نے عرض کی کہ یا اللہ ایسا بھی کوئی ہو گا جو اِس جہنم میں آنا چاہے گا؟

‏کہ یہ جہنم تو اتنی ہولناک اور خوفناک ہے، تب پھر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اب تم اِس میں آنے کے لیے بنایا ہوا راستہ بھی دیکھو، تو جب حضرت جبرائیل (ع) نے جہنم کی طرف لے آنے والا راستہ دیکھا تو بولے کہ اے میرے پروردگار کیا کوئی ایسا بھی ہو گا جو یہاں آنے سے بچ سکے گا؟ کیونکہ اتنا خوبصورت، عیش و عشرت سے بھرپور اور طرح طرح کی آسائشوں سجا ہوا ہے یہ راستہ”۔

‏تو حضورِ اقدس ﷺ کی اِس حدیثِ مبارکہ کو دیکھتے ہوئے ہمارے لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ کونسا راستہ جنت کی طرف لے جانے والا ہے اور کونسا جہنم کی طرف لے جانے والا ہے۔

‏اور اب آخر میں! میں یہ کہوں گا کہ جیسے ہم سب مسلمانوں اور پوری عالم انسانی کو یہ معلوم ہے کہ اب اللہ کی طرف سے ہماری اصلاح کرنے کے لیے کوئی نبی یا رسول نہیں آنے والا اور بے شک ہمارے پیارے نبی جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔

‏تو اُنہی ﷺ کی تعلیمات پہ چلتے ہوئے ہمیں اپنی اصل منزل کی طرف رواں دواں رہنا ہے اور اگر ہمارے درمیان کوئی اُن کے راستے سے بھٹکے بھی تو اُن کی اصلاح کرنا بھی ہمارے ذمّے ہے۔

‏اور اللہ سبحان و تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو شیطان مردود کی چالوں اور اُس کے پھینکے ہوئے جالوں سے محفوظ فرمائیں اور اپنی پناہ میں رکھیں۔ آمین

‏وآخر دعونا أن الحمدللہ رب العالمین

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں