477

تو یہ تھے بابا اقبال رح جن کو بڑی صفائی سے ہماری کتابوں، ہمارے نصابوں اور ہماری روز مرہ زندگی سے نکال دیا گیا.

بابا اقبالؒ سے متعلق لکھنے والے ہم کون ہیں ویسے لکھنے والے لکھتے ہیں کہ سنٹرل ایشیاء کے انقلاب کی کامیابی میں بابا اقبال رح کی شاعری نے بہت زیادہ کردار ادا کیا۔

رحیم خٹک: 9 نیوز اسلام آباد

میرے علم میں دو اشعار ایسے ہیں جو بابا کی فراست اور بصیرت پر ہلکی سی روشنی ڈالتے ہیں اور میں جب سنوں یا کہوں تو جھوم اٹھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ خدا فراست دینے پہ آئے تو کتنی فیاضی دکھاجاتا ہے۔
ایٹم بم کی تھیوری کو سادہ ترین الفاظ میں بیان کریں تو یوں ہو گی “کہ مادے میں قید توانائی کو کسی طرح آزاد کردیا جائے تو وہ تباہی مچا دےگی”۔ اب زرا بابا علامہ اقبال رح کی فراست کا مشاہدہ کریں جو اللہ نے ان کو عطا کی تھی کہ اولین ایٹمی دھماکے سے بہت پہلے علامہ اقبال نے الہام کے بل پہ کہہ دیا تھا کہ:
حقیقت ایک ہے ہرشے کی خاکی ہو کہ نوری ہو
لہو خورشید کا نکلے، اگر ذرّے کا دِل چیریں !
یوں لگتا ہے کہ یہ وہی الہام ہے جو نیوٹن کو ہوا تھا تو کششِ ثقل کا قانون دریافت ہوا تھا۔
اس شعر کے دوسرے مصرعے میں علامہ اقبال رح نے ایٹم بم کی ایجاد سے بہت پہلے ایٹم بم کی سائنٹیفک سچائی بتا دی جسے جدید سائنس بھی تصدیق دیتی ہے۔
اب ایک اور مثال دیکھیں۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شائد
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
21 اپریل 1938 کو وفات پانے والے علامہ اقبال اپنی وفات سے کافی عرصہ قبل اس کائناتی راز سے پردہ اٹھا گئے کہ کن فیکون کا عمل جاری و ساری ہے۔ کائنات کے پھیلنے کا نظریہ گو کہ پرانا ہے مگر 2008 میں ہاورڈ یونیورسٹی کے سمتھ سونین اور آسٹرو فزیکل آبزرویٹری ان کیمبرج، میسا چوسٹس یونیورسٹی کی ٹیم نے حتمی طور پر ثابت کیا کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اور اس کے پھیلنے میں ڈارک میٹر یا ڈاک انرجی کا کافی کردار ہے۔ اسی شعر کے دوسرے مصرعے کے کن فیکون کی تشریح کی گہرائی میں اتریں تو ہم پر یہ سائنسی حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ 13 ارب سال قدیم کائنات میں ستاروں کی پیدائش کا عمل مسلسل جاری و ساری ہے۔ زمین کے چوبیس گھنٹے کائناتی اکائیوں میں کوئی معنی ہی نہیں رکھتے لیکن ساعتوں کے اس کھیل میں روازنہ ارب ہا ارب نئے ستارے جنم لیتے ہیں اور روازنہ کتنے ہی ارب ستارے کسی بلیک ہول کی نظر ہو کر مر جاتے ہیں یا سپر نووا بننے کے بعد بلیک ھول میں تبدیل ہو کے موت قبول کرتے ہیں۔
میں اقبال کا کوئی باقاعدہ قاری نہیں ہوں۔ بس سرسری سا پڑھا، شائد اتنا بھی نہیں جتنا آپ میں سے اکثر لوگوں نے پڑھا ہے مگر پورے وثوق سے یہ بات کہتا ہوں کہ اقبال رح اپنے زمانے سے قبل، اپنے زمانے سے متعلق اور اپنے زمانے کے بعد سے متعلق اتنی سچائی سے بتا کر گئے ہیں کہ آج کا مؤرخ، آج کا فلسفی ،آج کا سائنسدان اور آج کا ماہرِ عمرانیات پڑھتا ہے تو حیرت میں گم ہو جاتا ہے۔ تو یہ تھے بابا اقبال رح جن کو بڑی صفائی سے ہماری کتابوں، ہمارے نصابوں اور ہماری روز مرہ زندگی سے نکال دیا گیا۔ اللہ نے ہمیں اور اس خطے کو بہت سے نادر جواہرات سے نوازا ہے۔ آگے یہ ہماری کوشش ہے کہ ہم کس حد تک ان سے مستفید ہو سکتے ہیں یا اپنی نسلوں کو ان سے فائدہ دیں ۔ یہ فیض بہرحال جاری و ساری ہے اور رہے گا۔

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں