
“یومِ قائد اور ہم”
مسلم لیگ کے پاس ایک سو گاندھی اور دو سو ابولکلام ہوتے،
“مگر کانگریس کے پاس صرف ایک محمد علی جناح ہوتے تو ہندوستان کبھی تقسیم نہیں ہوتا۔”
(وجے لکشمی پنڈت)
ایک نقاد کی طرف سے یقیناً یہ ایک بہت بڑی بات کی گئی ہے کیونکہ وہ بھی قائد کی کوششوں سے واقف ہیں،ایک ایسی شخصیت جس نے کبھی بھی ہمت نہیں ہاری وقت کے سورماؤں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور پاکستان جیسی عظیم مملکت بنا کر اپنے دشمنوں کو باور کروایا کہ جناح وہ ہے جو جس چیز کا ارادہ کر لے اُس کو پورا کرتا ہے،اسی لیے اس عظیم لیڈر کی تعریف دشمن نے بھی کی۔
ہر سال 25 دسمبر ہم یومِ قائد مناتے ہیں،کیا یومِ قائد منانا ہی کافی ہے؟ آئیں آج یومِ قائد پر قائد کے فرمودَات کی روشنی میں کچھ اپنا محاسبہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان جیسی عظیم ریاست کی بنیاد رکھنا اور پھر اُس کو پایہ تکمیل تک پہنچانا کوئی آسان کام نہیں اِس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد،بے شمار قربانیاں اور خلوص شامل ہے جیسا کہ کلکتہ یونیورسٹی میں ایک بار قائداعظم رحمةاللہ علیہ نے فرمایا:
“آپ اچانک ایک نئی دنیا تخلیق نہیں کرسکتے۔حصولِ آزادی کے لیے آپ کو ایک عمل سے گزرنا ہوگا۔آپ کو آگ کے دریا،ابتلاء اور قربانیوں کی راہ سے گزرنا پڑے گا۔مایوس نہ ہوں۔قومیں ایک دن میں نہیں بنا کرتیں لیکن جیسا کہ ہم رواں دواں ہیں، ہمیں ایسے قدم اُٹھانے چاہیں جو ہمیں آگے کی طرف لے جائیں۔آپ حقائق کا مطالعہ کریں،اُن کا تجزیہ کریں اور پھر اپنے فیصلوں کی تعمیر کریں۔”
آج بحیثیت پاکستانی ہم میں سے ہر ایک کو ضرورت ہے کہ ہم حقائق کو جانیں اور اس کا تجزیہ کریں نہ کہ سُنی سنائی باتوں پر کان لگا کر ان کا حصہ بن جائیں،دشمن تو افواہیں اڑاتا ہے،لیکن زندہ اور غیرت مند قومیں ان افواہوں کو ناکام بناتیں ہیں نہ کہ ان کو سن کر اپنے ہی ملک و فوج پر سوالات اٹھاۓ جائیں،فوج اس ملک کا اثاثہ ہے،دشمن ہم سے ہمارا اثاثہ چھیننا چاہتا ہے غلط فہمیاں پیدا کر کہ،تو حقائق کو جان کر دشمن کے وار کو ناکام بنائیں۔
پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا کس لیے؟ قائداعظم رحمةاللہ علیہ نے فرمایا:
“ہم نے صرف پاکستان کا مطالبہ نہیں کیا جو کہ زمین کا ایک ٹکڑا ہے بلکہ ہم نے ایسی ریاست کو چاہا جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔”
آج ہم بحیثیت قوم حکومت سے مطالبہ تو زور و شور سے اسلامی نظام کا کرتے ہیں مگر کیا ہم خود کو بھی بدل پائیں ہیں؟ہر کام حکومت اور اداروں کے کرنے کے نہیں ہوتے کچھ ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے ایک پاکستانی کی حیثیت سے،جب ہم خود کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالیں گے تو ہی حکومتی سطح پر کچھ ہو سکتا ہے،ہر شخص پاکستان میں تبدیلی چاہتا ہے لیکن تبدیلی اُس وقت تک نہیں آسکتی جب تک ہم خود کو نہ بدل لیں،ابتداء تو ہمیں اپنے آپ سے کرنی ہے،ہم بدلیں گے تو ملک بدلے گا۔
کسی بھی ملک کی ترقی میں ایک اہم کردار اُس کے طلبہ کا بھی ہوتا ہے،جو معاشرے کا یقیناً ایک اہم جز ہیں۔ جلسہ عام میں ایک بار قائداعظم رحمةاللہ علیہ نے فرمایا:
“میں تمام طلبہ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ!
خود کو کسی بھی سیاسی جماعت کے ہاتھوں کھلونا نہ بننے دیں ورنہ آپ بہت بڑی غلطی کریں گے۔۔۔۔۔۔۔
آپ کو اپنی تمام تر توجہ تعلیم پر مرکوز رکھنی چاہیے۔صرف اسی طرح آپ اپنے آپ سے،اپنے والدین سے اور ملک و ملت سے انصاف کر سکیں گے۔”
آج ہمارے طلبہ کہاں کھڑے ہیں؟کبھی طلبہ تنظیموں کے نام پر بے ہودہ احتجاج اور کبھی سیاسی چوروں کے حق میں جلسے۔۔۔۔۔۔کیا طلبہ کا یہ کام ہے؟
طلبہ اگر بہتری چاہتے ہیں تو وہ صرف اپنی تعلیم پر توجہ دے کر ہی لا سکتے ہیں نہ کہ کسی لال انقلاب سے بہتری آسکتی ہے۔
ہر سال یومِ قائد پر قائداعظم کے فرمودات سوشل میڈیا پر شئیر کر کے یا ان کے مزار پر پھول چڑھا کر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے قائداعظم رحمةاللہ علیہ کا حق ادا کر دیا تو ہم یقیناً غلط ہیں،حق تو ہم ادا نہیں کرسکتے مگر ان کی کی گئی کوششوں میں اپنا حصہ ضرور ڈال سکتے ہیں۔
آج کے یومِ قائد پر خود سے عہد کریں کہ خود کو بدلیں گے چاہیے کوئی ایک ہی عادت ہو اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں گے کیونکہ جب تک عوام نہیں بدلے گی اس وقت تک بہتری و ترقی ناممکن ہے۔
“پاکستان کو بدلنا ہے تو پہلے خود کو بدلنا ہے”
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان