
جنوری کے شروع میں چائنہ میں کرونا کیسز کی تعداد بڑھنا شروع ہوگئی۔ لوگ تیزی سے مرنا شروع ہوگئے۔ دنیا بھر میں چائنہ اکیلا اس جنگ سے لڑرہا تھا۔ سب نے ناصرف تمام قسم کے رابطے منقطع کیے بلکہ الٹا مذاق اڑایا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے طنزیہ لہجے میں کورونا وائرس کو “چائنہ وائرس” کہا۔ پاکستان میں ایک طبقہ خوشیاں منانے لگا کہ چائنہ پر عزاب ہے۔ کچھ نے تو باقاعدہ دعائیں کیں کی چائنہ تباہ ہوجائے۔ مگر چائنہ کسی بھی طنز یا مذاق کا جواب دیے بغیر لڑتا رہا۔ جانیں جاتی رہیں۔ملک کا ہر طبقہ ایک ہوگیا۔ مشکل کی اس گھڑی میں چائنہ کے ڈاکٹر واقعتاً مسیحا بن گئے۔ ہفتوں منہ پر ماسک چڑھائے لوگوں کے اعلاج میں لگے رہے۔ یہاں تک کہ ماسک کے نشانات واضح ہونا شروع ہوگئے۔ ہر کسی نے کہا کہ چائنہ اب ڈوب چکا ہے۔
وقت گزر گیا۔ آج لگ بھگ تین ماہ ہوچکے ہیں۔ پوری دنیا اسی اذیت کا سامنہ کررہی ہے۔ ہر طرف افراتفری ہے۔ واحد ملک جو اس وقت سکھ کا سانس لے رہا ہے، چائنہ ہے۔ چائنہ یہ جنگ جیت رہا ہے۔ دنیا خود کو ہارتا ہوا محسوس کررہی ہے۔ چائنہ میں زندگی لوٹ رہی ہے۔ باقی دنیا خود کو گھمبیر خطرے میں پارہی ہے۔ مگر چائنہ نے کسی کا مذاق نہیں اڑایا۔ چائنہ سب کو دعوت دے رہا ہے کہ آو ہم سے سیکھ لو کس طرح یہ جنگ جیتی جائے۔
آج چائنہ کا مذاق اڑانے والا ہر ملک امداد طلب نگاہوں سے چائنہ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اور چائنہ کھلے دل سے مدد کے لیے خود کو پیش کررہا ہے۔ امریکہ سے لے پاکستان تک سبھی چائنہ سے امید باندھ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ مذاق اڑانے والے ممالک اس جنگ کو جیتنے کے لیے چائنہ سے سازوسامان درآمد کررہے ہیں۔ ٹرمپ جس نے کورونا کو چائنہ وائرس کہا، آج بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا ہے۔ اندازہ ہے کہ آنے والے دنوں میں (خداناخواستہ) امریکہ کی عوام شدید نقصان اٹھائے گی۔ بعض مبصرین تو یہ تک کہہ رہے ہیں کہ اس وائرس کے ختم ہونے تک ورلڈ آرڈر مکمل بدل جائے گا۔ امریکہ کو اپنی سپر پاور اور طاقتور معیشت کا سٹیٹس خطرے میں نظر آرہا ہے۔
جبکہ دوسری جانب چینی حکومت و عوام ہیرو بن کر ابھر رہے ہیں۔ ہنسی اڑانے والے سبھی ممالک اب اسے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
اگر ہم چاہیں تو اب بھی چائنہ سے سیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے لیے تو امید کی کرن یہ بھی ہے کہ چائنہ کے ساتھ ہمارے تعلقات باقی ممالک کی نسبت مضبوط ہیں۔ شروع میں چائنہ کے پاس اگرچہ پیسہ تھا مگر حل نہیں تھا۔ سب سے مشکل کام ہوتا ہے بنیاد رکھنا، چاہے آپ کے پاس کتنا ہی پیسہ ہو۔ چائنہ ہزاروں جانیں گنوا کر، معیشت کو نقصان پہنچا کر فتح کی بنیاد رکھ چکا ہے۔ آج ہم بھی اسی بنیاد پر کھڑے ہوکر فتح سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہمیں “چائنیز” بننا ہوگا۔ اور “چائنیز” بننے کے لیے پہاڑ جیسا حوصلہ،ہمت اور عظم چاہیے۔ ہم دہشتگردی کو شکست دے چکے ہیں، ہم 2005 کے ہولناک زلزلے اور 2010 کے خوفناک سیلاب سے لڑ چکے ہیں۔ تو کیا ہم کورونا سے نہیں لڑسکتے؟ کیا ہم ہمت نہیں کرسکتے؟