584

ہمارے پھول مسلے جا رہے ہیں

مہمان کالم: تحریر اویس اسلم جہلم

“ہمارے پھول مَسلے جا رہے ہیں”
“کتنے بد بخت ہیں دل کے کالے لوگ
ہاۓ یہ حسد میں جلنے والے لوگ
سنو!۔۔۔ہاتھ مسلتے رہ جائیں گے
سب کے سب پھول مسلنے والے لوگ”
بچوں کو پھولوں سے تشبیہ دی جاتی ہے کیونکہ وہ اپنی ہنسی سے،اپنی میٹھی باتوں سے سب کی توجہ اپنی جانب کر لیتے ہیں بلکل اسی طرح جیسے پھول اپنی خوشبو سے سب کو اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے۔
پھول کسی باغ کا ہو یا کسی کے گھر کا لاڈلا چہکتا ہوا پھول سا بچہ۔۔۔۔ دونوں کو ہی جب مسلا جاتا ہے تو تکلیف ہوتی ہے۔۔۔۔۔افسوس کہ اب
پھولوں کو مسلنا تو روز کی بات ہوگئی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو آج کل پوری دنیا میں ہی ایسے ہزاروں واقعات رونما ہوں رہے ہیں ،کوئی ایک خاص ملک نہیں ہے جہاں صرف یہ واقعات ہوتے ہوں،
لیکن کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں ایسےواقعات کی تعداد باقی تمام ممالک سےکئ گنا زیادہ ہے جن میں یورپ کے ممالک سرِ فہرست ہیں یہ الگ بات ہیں کہ میڈیا ان ممالک کے ایسے واقعات کو نہیں دیکھاتا۔
پھول سے بچوں کےساتھ ریپ کےواقعات اب ملکِ پاکستان میں بھی بڑھتے جارہے ہیں جو یقیناً تشویشناک بات ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں بہت زیادہ تعداد میں بچوں سے ریپ کے حوالے سے کیس سامنے آئے۔۔۔۔
کچھ دن پہلے مانسہرہ میں مدرسے میں بچے کے ساتھ زیادتی کا جو واقعہ ہوا وہ سب کے سامنے ہے ، قصور کا واقعہ،زینب کا کیس،فرشتے کا کیس بے شمار واقعات،مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔۔۔۔مجرم طاقت ور ہیں قانون ان درندوں سے ڈرتا ہے اس لیے کہ ان درندوں کی پشت پناہی بڑے لوگ کرتے ہیں۔
رپورٹس کےمطابق پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ سال بچوں پر تشدد اور انکےساتھ جنسی زیاتی کےتقریباً 3500 واقعایات سامنےآئے،
اور بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ بڑی تعداد میں جن والدین کےبچوں کےساتھ ایسی درد ناک حرکات کی گئیں ان والدین نے شرم کے مارے پولیس تھانوں میں کیس تک درج نہیں کرایا،
جن والدین نےہمت کی اور انصاف کے حصول کی کوشش کی تاکہ مجرموں کو سزا دلوائی جا سکے مگر قانون جو طاقتور ہونے کا نعرہ لگاتا ہے وہ اس معاملے پر بلکل خاموش ہے،
ان والدین کو اس ملک کے نظام نے معاشرے کے سامنے زلیل کیا
اور سب سےبڑی بدقسمتی کی بات یہ ہے ان بچوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز میڈیا پر بھی نہیں اٹھائی گئی، جبکہ اخبارات میں بھی صرف 85 واقعایات کو کسی کونےمیں درج کیا گیا۔۔۔
کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں ایسے واقعات ہونے پر فوراً سزائیں دی گئیں جیسے
یمن میں ایک 8 سالہ بچی کےساتھ زیاتی ہوئی لیکن یمن کی حکومت نے فوری ایکشن لیا اگلے 5 گھنٹوں میں مجرم کو عدالت میں پیش کیا گیا اور سرعام بازار میں گولیاں مار کر موت کی سزا دی گی اور پورے ہفتے تک لاش کو بازار میں لٹکاۓ رکھا۔۔۔
اگر ہمارے ملک میں بھی ان درندوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائےتو میں دیکھتا ہوں کیسےاس طرح کے واقعات سامنے آتے ہیں۔۔۔
مجھے بڑے افسوس سےکہنا پڑھ رہا ہے کہ اس ملک کی بنیاد تو “لا الہ الا اللہ “پر رکھی گئ لیکن اس اسلامی مملکت میں آج بھی وہی انگریز کاقانون چل رہا ہے۔
اگر آج یہ تین سو دو ، چار سو پینتیس کی تمام دفعات کوختم کرکےاسلامی اصولوں کےمطابق سزا سنائی جائے تو میں دیکھتا ہوں کون جرم کرتاہے۔۔۔
آج تمام بچوں سے زیادتی کرنے والے مجرموں کو سرعام چوک میں کھڑا کر کے سنگسار کیا جائےتو پھر ایسے واقعات نہیں ہوں گے کیونکہ مجرم کو سزا کاخوف ہوگا اس کو پتا ہوگا کہ اسلامی قانون میری اس حرکت پر گرفت کرے گا اور وہ ایسی گندی حرکت کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچے گا۔۔۔
ہمیں اپنےبچوں کی ان درندوں سے حفاظت خود ہی کرنی ہے یہ نظام اس قابل نہیں ہے کہ ہمیں انصاف دے سکے۔اپنے بچوں کو اجنبیوں سے ملنے سے منع کریں بلکہ میں یہ کہوں گا کہ رشتے داروں کے ساتھ بھی بچوں کو اکیلا نہ بھیجیں،اپنے بچوں کے ہر لمحے کی خبر والدین خود رکھیں۔ آج آپ کی احتیاط آپ کے بچے کو کسی بھی ناگہانی سے بچا سکتی ہے،والدین کی بے احتیاطی و بے خبری بچے کا مستقبل تباہ کر سکتی ہے۔ تو احتیاط کیجیے تاکہ ہمارے بچے محفوظ ہوں اور کل اپنے بہتر مستقبل کی جانب پورے اعتماد کے ساتھ بڑھ سکیں۔
اللہﷻ ہمارے بچوں کو ہر آفت سے محفوظ رکھے،آمین

پاکستان زندہ آباد🇵🇰

9news
Follow
Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں