610

ڈارک ویب کیا ہے…؟

تحریر و تحقیق رحیم خان چیف ایگزیکٹیو آفیسر 9 نیوز اسلام آباد

بعض لوگ ڈارک ویب اور ڈیپ ویب (Deep Web) کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ لیکن ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ڈیپ ویب کا حجم اُس ورلڈ وائیڈ ویب سے پانچ سو گنا زیادہ ہے جس تک ہمیں رسائی حاصل ہے۔ اسے بعض اوقات سمندر میں بہتے آئس برگ سے تشبیہ دی جاتی ہے جس کا اوپری حصہ عام ویب یا سرفیس ویب جبکہ پانی کے نیچے موجود حصہ ڈیپ ویب ہے۔

ڈارک ویب بمقابلہ ڈیپ ویب
ڈیپ ویب دراصل وہ ویب سائٹس یا آن لائن سروسز ہیں جن تک عام لوگوں کو رسائی حاصل نہیں ہوتی ۔ انہیں کوئی سرچ انجن بھی انڈیکس نہیں کرتا اس لئے گوگل جیسے سرچ انجن پر تلاش کرنے پر بھی ان کا کوئی ربط نہیں ملتا۔ ڈیپ ویب کی مثال کے طور پر ایک آن لائن ڈیٹا بیس پیش کیا جاسکتا ہے جس میں تلاش کے لئے آپ کو کچھ آپشن منتخب کرنے ہوتے ہیں یا Captcha ٹائپ کرنا پڑسکتا ہے۔ چونکہ کوئی سرچ انجن ایسا نہیں کرسکتا، اس لئے آپشن منتخب کرنے کے نتیجے میں جو ڈیٹا ملتا ہے، وہ سرچ انجن کی دسترس میں نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں ویب سائٹس ایسی ہیں جن پر بے شمار خفیہ سروسز چل رہی ہیں۔ ڈارک ویب بھی دراصل ڈیپ ویب کا ہی حصہ ہے، لیکن یہ ڈیپ ویب کے حجم کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے۔

ورلڈ وائیڈ ویب کی تشکیل
سر ٹم برنرزلی سے کون واقف نہیں۔ موصوف1980ء میں CERN سے منسلک ہوئے جو دنیا کی سب سے بڑی ذراتی طبیعیات کی لیبارٹری چلانے کا ذمے دار ادارہ ہے۔ اس لیبارٹری میں کام کے دوران انہوں نے ہائپر ٹیکسٹ (ایک دوسرے سے بذریعہ لنک مربوط دستاویزات) کے تصور کو سامنے رکھتے ہوئے ENQUIRE نامی پروجیکٹ کا منصوبہ پیش کیا۔ اس پروجیکٹ کا مقصد سرن کے محققین کے لئے ایک دوسرے تک تازہ معلومات کی تیز رفتار ترسیل تھی۔ کچھ ماہ بعد سرن میں کام کرنے کے بعد ٹم برنرزلی نے نوکری کو خیر آباد کہہ کر ایک نجی کمپنی میں ملازمت اختیار کی جہاں انہیں کمپیوٹر نیٹ ورکس کے بارے میں سیکھنے کو ملا۔ موصوف 1984ء میں ایک بار پھر سرن سے منسلک ہوگئے اور 1989ء تک سرن یورپ کا سب سے بڑا کمپیوٹر نیٹ ورک بن چکا تھا۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ٹم برنرزلی کہتے ہیں ”مجھے بس ہائپر ٹیکسٹ کے خیال کو ٹرانسمیشن کنٹرول پروٹوکول (TCP) اور ڈومین نیم سسٹم کے خیال کے ساتھ ملانا تھا اور اس کے نتیجے میں ورلڈ وائیڈ ویب تشکیل پا گیا۔ ویب بنانے کی اصل وجہ مایوسی تھی کیونکہ جب میں سرن میں کام کررہا تھا، اِس کے بغیر صورت حال بہت مشکل تھی ۔ ویب کی تشکیل میں کارفرما زیادہ تر ٹیکنالوجیز جیسے ہائپر ٹیکسٹ ، انٹرنیٹ، ایک سے زیادہ فونٹ میں متن لکھنے کی صلاحیت پہلے سے ہی بنائی جاچکی تھیں۔ مجھے بس انہیں ایک جگہ یکجاں کرنا تھا۔ “
6اگست 1991ء کو ٹم برنرزلی ورلڈ وائیڈ ویب کو باقاعدہ طور پر منظر عام پر لے آئے۔ اس کے بعد آنے والے وقت میں ورلڈ وائیڈ ویب نے ”گولی“کی رفتار سے ترقی کی۔ چند ہی سالوں میں لاکھوں ویب سائٹس آن لائن ہوگئیں۔ نت نئی سروسز شروع ہوگئیں اور زندگی ایک نئے ڈگر پر چل نکلی۔ ورلڈ وائیڈ ویب کو انسانیت پر ایک احسان کا درجہ حاصل ہوگیا اور دنیا سمٹ کر ایک کمپیوٹر اسکرین میں سما گئی۔ اس کے ثمرات دنیا بھر میں نظر آنے لگے اور ہمارے روز مرہ کے کاموںکے لئے انٹرنیٹ اور بالخصوص ورلڈ وائیڈ ویب کی محتاجی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی چلی گئی۔ تیز رفتار رابطوں کے لئے خطوط کی جگہ ای میلز نے لے لی اور اہم سرکاری دستاویزات وراز جو کبھی سرکاری دفتروں کی الماریوں میں دفن ہوجاتے تھے ، ڈیجیٹل شکل اختیار کرنے لگے۔
انٹرنیٹ اور پرائیویسی خدشات
1985ء میں جس وقت ٹم برنرزلی ورلڈ وائیڈ ویب کو حتمی شکل دینے میں مصروف تھے، ڈیوڈ چام نے Security without Identification کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا تھا۔ اس مضمون میں انہوں نے ایک جگہ لکھا کہ ” کمپیوٹرائزیشن کی وجہ سے لوگ اپنے متعلق معلومات کے ممکنہ استعمالات کی نگرانی کرنے اور قابو کرنے کی صلاحیت سے محروم ہورہے ہیں۔ پبلک اور پرائیوٹ ادارے پہلے ہی لوگوں کی ذاتی معلومات جمع کررہے ہیں اور اسے ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے ہیں۔ لوگوں کے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان کی معلومات درست ہے، پرانی ہے یا نامناسب ہے۔ انہیں اس کے بارے میں اسی وقت پتا چلتا ہے جب ان پر الزامات لگتے ہیں یا اس معلومات کی بنیاد پر انہیں کوئی سروس فراہم کرنے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ “

ڈیوڈ چام نے آج سے تقریباً تین دہائی پہلے جس خدشے کا اظہار کیا تھا وہ آج ہمارے سامنے خوفناک حقیقت کی شکل میں موجود ہے۔ گوگل، یاہو! اور فیس بک جیسی کمپنیاں اپنے صارفین کے بارے میں اس قدر معلومات رکھتی ہیں جس کا تصور بھی مشکل ہے۔ رہی سہی کسر طاقتور ممالک نے پوری کررکھی ہے۔ انٹرنیٹ اور ورلڈ وائیڈ ویب کے ابتدائی دنوں میں ہی ان ممالک نے مختلف حربوں کے ذریعے جاسوسی کا عمل شروع کردیا تھا۔ لیکن گزشتہ سال جب امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق ٹیکنیکل کنسلٹنٹ ایڈورڈ سنوڈن نے اس خفیہ ادارے کی حرکات و سکنات سے پردہ اٹھایا تو دنیا سکتے میں ہی آگئی۔

NSA کیسے آپ کے ڈیٹا پر نقب لگائے بیٹھی ہے؟

کسی نے نہیں سوچا تھا کہ جاسوسی کا یہ کام اس قدر بڑے پیمانے پر بھی کیا جارہا ہوگا۔ٹم برنرزلی بھی یہ سب دیکھ کر تلملا اُٹھے اور انٹرنیٹ صارفین کے تحفظ کے لئے ”عظیم منشور یا میگنا کارٹا “جیسے قانون کا مطالبہ کرڈالا۔ میگنا کارٹا 1215ء میں منظور ہونے والا وہ تاریخی قانون ہے جس میں سلطنت برطانیہ کے بادشاہ John کو عوام نے مجبور کردیا کہ وہ آزاد شخص کو بنیادی آزادیاں دینے کی ضمانت دے۔ اس قانون میں ضمانت دی گئی کہ کسی آزاد شخص کو گرفتار کرکے قید نہیں کِیا جائے گا یا اُس کے حقوق یا اثاثوں پر قبضہ نہیں کِیا جائے گا، نہ ہی اُسے ملک بدر یا اسیر کیا جائے گا یا کسی دوسرے طریقے سے اُس کی حیثیت سے محروم کیا جائے گا۔ اُس سے زبردستی کی جائے گی نہ کسی کو ایسا کرنے کیلئے بھیجا جائے گا صرف اُس کے برابر کے لوگوں یا مُلک کے قانون کے مطابق قانونی طور پر ایسا کیا جا سکتا ہے۔برطانوی بادشاہ John نے یہ بھی اقرار کیا کہ اس کی اپنی ذات بھی قانون سے بالاتر نہیں۔

ٹور پروجیکٹ

جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا انٹرنیٹ پر جاسوسی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود انٹرنیٹ۔ امریکی حکومت کو اس کا بخوبی احساس تھا (شاید اس لئے کہ وہ اس کام میں خود بھی ملوث تھے) کہ انٹرنیٹ پر ہونے والے ڈیٹا کے تبادلے کو نگرانی سے بچانے کے لئے کسی نظام کی ضرورت ہے۔ یہ نظام وہ اپنے ڈیٹا اور کمیونی کیشن کو باقی دنیا کی نظروں سے بچانے کے لئے بنانا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لئے امریکہ نیول ریسرچ لیبارٹری کے تین ملازمین جن میں سے ایک ریاضی دان اور دو کمپیوٹر سائنٹسٹ تھے، نے onion routing کا نظام پیش کیا۔ یہ بات 90ء کی دہائی کے وسط کی ہورہی ہے۔ اس نظام کی بنیاد ڈیوڈ چام کا وہی مقالہ تھی جس میں انہوں نے ای میل کو الیکٹرانک سرویلنس یا نگرانی /جاسوسی سے بچنے کا طریقہ وضع کیا تھا۔

ستمبر 2002ء میں اس پروجیکٹ کو TOR یا The Onion Routing کے نام سے جاری کیا گیا۔ لیکن انقلابی تبدیلی اس وقت آئی جب 2004ء میں نیول ریسرچ لیباریٹری نے اس پروجیکٹ کو اوپن سورس کردیا۔

Onion راؤٹنگ کے کام کرنے کا طریقہ کار بہت دلچسپ ہے۔ اس میں ڈیٹا بھیجنے اور وصول کرنے والے کمپیوٹرز کے درمیان براہ راست رابطہ نہیں ہوتا بلکہ ڈیٹا کو دنیا بھر میں پھیلے relay کمپیوٹرز جنہیں node یا router بھی کہا جاتا ہے، سے گزار کر منزل مقصود پر پہنچایا جاتا ہے۔

ڈیٹا بھیجنے سے پہلے اسے تین بار encrypt کیا جاتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ پیاز کے چھلکوں کی طرح انکرپشن کی تین پرتیں لگائی جاتی ہیں۔ پھر اس ڈیٹا پیکٹ کو اٹکل سے (randomly) منتخب کردہ نوڈز کو بھجوایا جاتا ہے۔ نوڈز کی یہ فہرست ایک اسپیشل نوڈ جسے ڈائریکٹری نوڈ کہا جاتا ہے، فراہم کرتی ہے۔

ہر راؤٹر یا نوڈ سے گزرنے پر انکرپشن کی ایک پرت نکال دی جاتی ہے۔ جب نوڈ ڈیٹا کو decrypt کرتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ یہ ڈیٹا پیکٹ اسے آگے کس نوڈ کو بھیجنا ہے لیکن اسے یہ نہیں پتا چلتا کہ جس نوڈ نے اسے یہ ڈیٹا پیکٹ تھمایا تھا وہ پہلا نوڈ تھا یا تیسرا۔ تینوں نوڈز سے گزرنے کے بعد ڈیٹا پیکٹ exit نوڈ پر پہنچاتا ہے جہاں یہ مکمل طور پر decryptہوچکا ہوتا ہے۔ وہاں سے اس ڈیٹا پیکٹ کو اس کی منزل مقصود پر پہنچا دیا جاتا ہے۔

دسمبر 2006ء میں کچھ لوگوں نے مل کر The Tor Project نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس نے TOR میں بہتری کا بیڑا اُٹھایا۔ اس تنظیم کو مالی مدد فراہم کرنے والوں میں گوگل ، ہیومن رائٹس واچ اور یونی ورسٹی آف کیمبرج جیسے نامی گرامی ادارے تھے۔

TOR پروجیکٹ نے انٹرنیٹ سینسر شپ اور الیکٹرانک سرویلنس کی بنیادیں ہلا کر رکھی دیں۔ مشرق سے مغرب تک جس حکومت کا جتنا زور رہا ہے، اس نے اپنے محکوموں پر انٹرنیٹ کے کچھ دروازے بند کرنے کی کوشش کی ہے یا ان کی جاسوسی کرتے رہے ہیں۔ TORکی وجہ سے یہ دونوں کام ہی ممکن نہیں تھے۔ ایڈورڈ سنوڈن کی چور ی کردہ سی آئی اے کی خفیہ دستیاویزات سے پتا چلتا ہے کہ سی آئی اے TOR کی وجہ سے کس قدر جھنجھلاہٹ کا شکار تھی کیونکہ اس کے وجہ سے جاسوسی اور نگرانی کا عمل نہیں ہوپارہا تھا۔
ڈارک ویب
یہ نظام جو دراصل لوگوں کی حفاظت کے لئے بنایا گیا تھا، ایک انتہائی خطرناک کام کے لئے بھی استعمال ہونے لگا۔ انٹرنیٹ پر ہونے والے جرائم کے مجرموں تک پہنچنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروںکے لئے انٹرنیٹ پر مجرم کے نشانات ہی اس تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہوتے ہیں۔ TOR ان نشانات کو مکمل طور پر مٹا دیتا ہے ۔ اس لئے TOR استعمال کرنے والے مجرم تک پہنچنا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ہے۔ اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جرائم پیشہ افراد نے TOR کو جرائم کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ انٹرنیٹ کا وہ حصہ جس تک پہنچنے کے لئے آپ کو TOR کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ جرائم کا گڑھ بن چکی ہے، ڈارک ویب کہلاتی ہے۔

ڈارک ویب ورلڈ وائیڈ ویب کا وہ بھدا چہرا ہے جہاں چرس، ہیروئن سمیت ہر قسم کی منشیات خریدی جاسکتی ہیں، کسی کو اغواء کرایا جاسکتا ہے، کسی کو قتل کرنے کے لئے قاتل کو کرائے پر لیا جاسکتا ہے، جعلی پاسپورٹ بنوائے جاسکتے ہیں، چوری کے کریڈٹ کارڈ خریدے جاسکتے ہیں، ہر قسم کے ہتھیار خریدے جاسکتے ہیں۔ الغرض، ہر وہ جرم جس کے بارے میں آپ تصور کرسکتے ہیں، وہ ڈارک ویب پر کیا جارہا ہے۔

ڈارک ویب تک رسائی کے لئے عام یو آر ایل نہیں بلکہ خاص قسم کے یو آر ایل ہوتے ہیں جن کے آخر میں .comیا .net جیسے ایکسٹینشن کے بجائے .onion کا ایکسٹینشن ہوتا ہے اور انہیں یاد رکھنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔مثال کے طور پر http://2vlqpcqpjlhmd5r2.onion ۔ ان ایڈریسز کے بارے میں انڈر گراؤنڈ فورمز اور دیگر ڈارک ویب سائٹس سے پتا چلتا ہے۔ سرچ انجنز ان کے قریب بھی نہیں پھٹک پاتے اس لئے ان کے بارے میں معمولی تعداد میں ہی لوگوں کو پتا چلتا

ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے مشکل یہ ہے کہ کوئی بھی شخص جس کے پاس تھوڑی سے تکنیکی معلومات ہے اور وہ TOR کے استعمال سے واقف ہے، چند منٹوں میں دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر اپنی ڈارک ویب آن لائن کرسکتا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ TOR پروجیکٹ نے یہ کام بہت آسان بنا دیا ہے۔ ان کی ویب سائٹ سے TOR براؤزر سمیت کئی دیگر ready-to-use قسم کے ٹولز ڈاؤن لوڈ کئے جاسکتے ہیں جو صارف کی آن لائن شناخت کو مکمل طور پر خفیہ رکھنے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ ان ویب سائٹس کے بارے میں پتا بھی نہیں لگایا جاسکتا کہ انہیں کہاں ہوسٹ کیا گیا ہے، انہیں چلانے والا کون ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پولیس کو بھی ان ویب سائٹس کے بارے میں اس وقت پتا چلتا ہے جب ان سے ہونے والے جرائم بڑھنے لگتے ہیں۔

سلک روڈ ڈارک ویب کی ایک اچھی مثال تھی۔ اس ویب سائٹ پر شاید ہی کوئی منشیات کی کوئی ایسی قسم ہوجو کہ نہ خریدی جاسکتی ہو۔ یہ ویب سائٹ غیر قانونی دھندوں میں اس قدر مقبول اور ملوث ہوگئی کہ امریکی ایف بی آئی کو اسے بند کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگانا پڑ گیا ۔ کچھ عرصہ پہلے ہی سلک روڈ کے سرورز تک رسائی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی اور اسے بند کردیا گیا۔ لیکن چند ماہ بعد ہی سلک روڈ 2 منظر عام پر آگئی کیونکہ سلک روڈ کے بنانے والے نے اس کا سورس کوڈ کسی دوسری ڈارک ویب سائٹ پر شائع کردیا تھا۔ جس وقت سلک روڈ کو بند کیا گیا، اس وقت اس پر کئی ملین ڈالر مالیت کے بٹ کوائن موجود تھے جنہیں امریکی سرکار نے اپنے قبضے میں کرلیا۔

ڈارک ویب پر سلک روڈ جیسی سیکڑوں ویب سائٹس ہیں جہاں غیر قانونی اور بعض اوقات عجیب و غریب سروسز فراہم کی جاتی ہیں۔ ہماری نظر سے ایک ایسی ڈارک ویب بھی گزری ہے جہاں یورپ میں رہنے والے کسی شخص کو قتل کرنے کا آرڈر دیا جاسکتا ہے اور کام کی قیمت ہے صرف 20 ہزار یورو۔ کسی صحافی کی صورت میں یہ رقم 65 ہزار یورو ہوگی جبکہ کسی اہم سرکاری عہدے پر فائز آفیسر کی جان کی قیمت ایک لاکھ یورو ہے۔

ایسی ہی ایک اور ویب سائٹ پر طبی تجربات کے لئے اغواء کئے گئے مرد ، خواتین اور بچوں کی فراہمی کی جاتی ہے۔ ان طبی تجربات جن کا عام حالات میں سوچا بھی نہیں جاسکتا، کے نتیجے میں اگر انسان کی موت واقع ہوجائے تو اس کی لاش کو ٹھکانے لگانے کا انتظام بھی ان کے پاس ہے۔ خدا جانے کہ یہ کتنی حقیقت اور کتنا افسانہ ہے، لیکن ڈارک ویب پر اس قسم کی اَن گنت سروسز فراہم کئے جانے کے وعدے کئے جاتے ہیں۔

چوری کے کریڈٹ کارڈ بیچنے کا کاروبار ڈارک ویب پر سب سے مقبول جرائم میں سے ایک ہے۔ یہاں ایک چوری کا کریڈٹ کارڈ پانچ سے ایک سو ڈالر فی کریڈٹ کارڈ فروخت ہوتا ہے۔ جبکہ ان کریڈٹ کارڈز کو استعمال بھی عموماً TOR کے ذریعے کیا جاتا ہے تاکہ استعمال کنندہ کی شناخت نہ ہوسکے۔

عام زندگی میں کئے جانے والے جرائم اور مجرم کا سراغ لگانے کے لئے جرم کے عوض لئے گئے پیسوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی شخص کے اکاؤنٹ میں اچانک بڑی رقم کی منتقلی یا اس کے اچانک کسی مہنگی چیز کی خریداری سے چوکنے ہوجاتے ہیں۔ لیکن ڈارک ویب پر صورت حال مختلف ہے۔ یہاں ڈالر، یورو یا کسی دوسری کرنسی میں رقم وصول نہیں کی جاتی۔ کیونکہ ایسی صورت میں مجرم تک پہنچانا بے حد آسان ہوجائے گا۔

ڈارک ویب کو جرائم کا گڑھ بنانے میں بڑا ہاتھ بٹ کوائن کا ہے۔ یہ وہ کرنسی ہے جس کا طبعی طور پر کوئی وجود نہیں۔ اسے کوئی چھاپتا ہے نہ اسے کوئی کنٹرول کرسکتا ہے۔ یہ بینکنگ نظام سے باہر کی چیز ہے اور اس کی قدر کا تعین طلب ورسد کے فرق کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ یہ نظام بہت پیچیدہ ہے اور اس پر نگرانی کا عمل انتہائی مشکل ہے۔ بٹ کوائن بھیجنے اور وصول کرنے والوں کی شناخت مکمل طور پر مخفی رہتی ہے جو اسے جرائم کے عوض رقم وصول کرنے کے لئے ایک آئیڈیل کرنسی بناتی ہے۔ (بٹ کوائن کے حوالے سے مزید جاننے کے خواہش مند کمپیوٹنگ کا ستمبر2013ء کا شمارہ ملاحظہ کرسکتے ہیں جس میں راقم کی اس موضوع پر ایک مفصل تحریر شائع ہوئی تھی)۔

ڈارک ویب پر ہونے والی تقریباً تمام ادائیگیاں بٹ کوائن کی صور ت میں ہوتی ہیں۔ چونکہ بٹ کوائن کو طبعی کرنسی جیسے ڈالر یا یورو میں بدلنے کے لئے کوئی خاص تگ و دو نہیں کرنی پڑتی۔ اس کے لئے کئی بٹ کوائن ایکسچینج موجود ہیں جو منٹوں میں بٹن کوائنز خرید کر اصل رقم بیچنے والے کو تھما دیتے ہیں۔ اس لئے بٹ کوائن وصول کرنے میں کسی کو کوئی پریشانی بھی نہیں ہوتی۔

ڈارک ویب سے چھٹکارا مستقبل قریب میں ناممکن ہے۔ ہوسکتا ہے آپ سوچیں کہ کیوں نہ TOR پر پابندی لگا دی جائے۔ اول تو یہ ممکن نہیں کیونکہ TOR وہ چھری ہے جسے سبزی کاٹنے کے لئے بنایا گیا تھا اور اب اگر اسے آلہ قتل کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے تو اس میں TOR قصور وار نہیں، دوسرا TOR کے علاوہ بھی اُس جیسے کئی پروجیکٹ کام کررہے ہیں۔ ڈارک ویب آج اگر TORکے سہارے زندہ ہے تو کل اسے کوئی اور سہارا مل جائے گا۔

انٹرنیٹ کو آزادی سے استعمال کرنے کا حق ہم سب کا ہے لیکن اس حق کو تسلیم کیا جانا ابھی باقی ہے۔ یہ امید رکھنا ہے کہ طاقتور حکومتیں سرویلنس کا عمل چھوڑ دیں گی، خام خیالی ہی ہے۔ ایسے میں TOR جیسے پروجیکٹ کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ لیکن ڈارک ویب نے اس پروجیکٹ کا جس قسم کا استعمال کیا ہے، وہ انتہائی دردناک ہے۔

9news
Follow
Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں