
پاکستان خطے میں سب سے زیادہ متحرک میڈیا مناظر میں سے ایک ہے۔ ایک طرف، یہ میڈیا انقلاب نے ملک میں جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے تو دوسری طرف کسی بھی سماجی یا سیاسی انقلاب کے کارکنوں کی طرح معاشرے کو زبردست باہمی نقصان بھی پہنچایا ہے.میڈیا کی سرگرمیوں کا پاکستان میں لوگوں کی نفسیات پر اثر پڑتا ہے۔ آپ کے لا شعور میں آپ کی زندگی کے تجربات کو کنٹرول کرنے کی بے حد طاقت ہے، آپ کے اپنا کھانے کی اقسام سے لے کر, آپ کی ہر روز کرنے والی کارروائیاں ، آمدنی کی سطح اور یہاں تک کہ دباؤ والے حالات پر آپ کس طرح کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر اب بھی آپ کو لاشعور کی طاقت سمجھ نہیں آئی تو آئے ایک مثال لیتے ہیں: میں آپ سے کہتی ہوں کہ آپ ہاتھی کے بارے میں مت سوچیے، تواس وقت آپ کیا سوچ رہے ہیں؟؟ جی یقینا آپ ہاتھی کے بارے میں ہی سوچ رہے ہیں کیونکہ میں چاہتی تھی کی آپ ہاتھی کے بارے میں سوچیں اس لیے میں نے ایسے الفاظ استعمال کیے۔ اسی لاشعور کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے میڈیا ہمارے ذہنوں میں وہ سب کچھ ڈال رہا ہے جو وہ چاہتا ہے۔

ہمارے دماغ کو کہانی بہت پسند ہے پھر چاہے ٹیلی ویژن پہ ڈرامہ کی صورت میں ہو،کوئی فلم ہو، افسانے کی کتاب ہو ، یا کسی کلائنٹ کو کوئی مصنوع فروخت کرنے کی کوشش ، کردار سے چلنے والی کہانیاں ہمارے دماغ کو تبدیل اور شکل دیتی ہیں۔آج ٹیلی ویژن پر مختلف چینلز اسی نفسیاتی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ہماری ثقافت کو بدلنے کی کوششوں میں ہے۔ ٹیلی ویژن کے چینل جیو کی طرف سے پیش کردہ ایک ڈرامہ سیریل رمز عشق کی ہی مثال لے لیجئے۔اس ڈرامے میں غیر محسوس طریقے سے بھگوان کی مورتیوں کو ڈیکوریشن پیس کی صورت میں سجا رکھا ہے۔یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے جیو چینل پر دکھائے جانے والے اکثر ڈرامہ پاکستانی روایت اور ثقافت کے برعکس سےہی ہوتے ہیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ جو کچھ ان ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے اسے ہمارا معاشرہ اپنانا شروع کر دیتا ہے۔ جس میں موڈیرنسم کا لبادہ اوڑھے ماڈلز کی نقل کرکے انہی کی طرح کا لباس پہننا، شرم و حیا کو بھول کر ،اندھے ہوکر ان ہی کے پیچھے چل پڑنااور ماڈرنزم کے نام پر انہیں کا طریقہ اختیار کرنا شامل ہے۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے عین ممکن ہے رمز عشق میں دکھائے جانے والی مورتیاں ہمارے گھروں تک بھی پہنچ جائینگی ۔ سب جانتے ہیں کہ جیو کس کے ایجنڈے پر کام کرتا ہے۔ یہ اینٹی پاکستانی چینل پاکستان کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے میں لگا ہوا ہے۔ ان کے ڈرامہ سیریل ہو یا مارننگ شوز ہر طرح سے یہ ہمارے مذہب اور ہمارے پاکستان کے خلاف مواد دکھاتے ہیں۔ پاکستان فوج کے ساتھ اتحاد کی بات ہو تو کبھی جیو چینل آپ کو محب الوطن پاکستانیوں ساتھ کھڑا ہوا نظر نہیں آئے گا۔ فیڈرل انوسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے درجنوں ایسی سوشل میڈیا ٹیموں کی شناخت کی ہے جو منظم طریقے سےمیڈیا پر پاکستان خلاف مواد پھیلانے اور ملکی سالمیت کو بری طرح متاثر کرنے میں مصروف تھے۔ یہ پانچویں نسل کی جنگ کے اصولوں میں سے ایک ہے کہ کسی بھی قوم کی آئیڈیالوجی چینج کرو ۔جس قوم کا نظریہ بدل جاتا ہے اس قوم کے تہذیب مر جاتی ہے اور جب تہذیب مر جائے تو پھر فرق نہیں پڑتا حکومت گورے کریں یا کالے۔
یہ پانچویں نسل کی جنگ ہی سب سے خطرناک جنگ ہے،کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ ہمارا دشمن کون ہے؟ اس دشمن نے سامنے آ کر لڑنے کے بجائے نفسیاتی حملہ کرنا زیادہ موضوع سمجھا کہ اس طریقے سے وہ ہمیں ہرا سکتا ہے۔ یہ ذہنوں کو نشانہ بناتے ہوئے نوجوان نسل کو مفلوج کرنے میں لگے ہوئے ہیں، آزادی مارچ، اسٹوڈنٹ مارچ، ومن رائٹس کے نام پر فحاشی، معصوم بچوں کے ساتھ شرمناک حرکات، لبرلزم کے نام پر ملک کی تہذیب کو نقصان پہنچانا، فرقہ واریت اور سیاست کا استعمال کرکے آپس میں تفرقہ پھیلانا، پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا، پاکستانی عوام کو ملک کے خلاف کرنا، اسلام کی تعلیم سے دور کرکے کافروں کے طریقے کار کو اپنانا، سائبر اٹیکس، جھوٹی خبریں ، سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے، سکولوں اور کالجوں میں طلبہ کو نشے کا عادی بنانا، ان کی برین سٹارمنگ اپنےکر کے مقاصد حاصل کرنا یہ سب پانچویں نسل کی جنگ کا ہی حصہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس جنگ سے اپنا دفاع کیسے کیا جائے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ایک بار کہا تھا کہ اس ملک کا ہر فرد سپاہی ہے تو سپاہی کا حق ادا کرتے ہوئے ہم سب پر یہ فرض ہے کہ ہم اپنا دفاع اسلام کے اصولوں کو مضبوطی سے تھامے ہوئے کریں۔ ہمیں نہیں بھولنا کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے، آئڈیالوجی جس پر علامہ اقبال اور قائداعظم نے اس ملک کی بنیاد رکھی، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہ احکامات پر سر تسلیم خم کرنا ہی نجات کا ذریعہ ہے۔ ہمیں یہ بات جان لینی چاہئے اسلام ہی ہماری طاقت ہے، ہمارا ایمان مضبوط ہے تو نہ کوئی ہمیں جدید ٹیکنالوجی سے ہرا سکتا ہے اور نہ ہی پانچویں نسل کی جنگ ہمیں کمزور کرسکتی ہے۔