
یونان و ترکی کشیدگی
نامراد تیل نے مشرق وسطیٰ کو ایک عرصے سے کشیدگی اور عدم استحکام میں مبتلا کررکھا ہے اور اب بحرروم (Mediterranean) میں سیال سونے کی تلاش کیلئے ترکی اور یونان جنگ و جدل پر تیار نظر آرہے ہیں ۔ بحرروم کی تہوں میں تیل و گیس کے چشمے موجزن ہیں جنھیں حاصل کرنے کیلئے اسرائیل، مصر، یونان ، ترکی اور لیبیا مصروف عمل ہیں۔ محل وقوع کے اعتبار سے اس سمندر کی حدود واضح نہیں اور ہر ملک اسکے پانیوں پر اپنا حق جتا رہا ہے۔
بحر روم کے جنوب مشرقی حصے میں غزہ سے متصل پانیوں کی تہہ میں نوح شمال، ماری اور دالت فیلڈز سے اسرائیل گیس کشید کررہا ہے۔ بلاشبہ یہ اہل غزہ کی دولت ہے لیکن کس میں ہمت ہے کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کے استحصال سے روکے۔ لبنان کا دعویٰ ہے کہ تامر گیس فیلڈ اسکی ملکیت ہے لیکن اسرائیل اس مسئلے پر بات چیت کیلئے بھی تیار نہیں۔ یہیں گہرے پانیوں میں گیس کا یک بہت بڑا میدان Leviathanحال ہی میں دریافت ہوا ہے۔
جنوب وسطی بحر روم میں مصر کی ظہر گیس فیلڈ دنیا کے چند بڑے گیس ذخائر میں سے ایک ہے۔
شمال مشرق میں ترکی سے جزیرہ قبرص تک کے علاقے کو ترکی اپنامخصوص اقتصادی زون یا EEZسمجھتا ہے اور انقرہ اس علاقے میں کسی اور کی موجودگی برداشت کرنے کو تیار نہں۔ گزشتہ برس کے آغاز میں اٹلی کی Eni نے قبرص کے قریب تیل و گیس کی تلاش کیلئے Saipem 12000نامی رگ بردار جہاز (Drillship)بھیجا جسے وہاں پہنچتے ہی ترک بحریہ نے گھیر لیا اور ڈبونے کی دھمکی دیکروہاں سے چلے جانے پر مجبور کردیا۔ اس رگ بردار جہاز نے بعد میں کراچی کے قریب مشہور زمانہ کیکڑا ون کی کھدائی کی۔
یونان اس علاقے پر ترکی کا حق قبول نہیں کرتا اور وہ یونانی قبرص سے مل کر علاقے میں قسمت آزمائی کرنا چاہتا ہے۔ کئی مرتبہ دونوں کی بحریہ آمنے سامنے آچکی ہیں لیکن صدرایردوان کے دوٹوک روئیے کی بنا پر یونانیوں نے پسپائی اختیار کرلی۔ ترکی و یونان دونوں ہی نیٹو (NATO)کے رکن ہیں چنانچہ اس ہفتے نیٹو کی سربراہ کانفرنس میں بھی یہ مسئلہ اٹھا۔ فرانس، برطانیہ اور جرمنی سمیت تمام یورپی ممالک نے یونان کی حمائت کی۔ صدرایردوان نے صاف صاف کہدیا کہ ترکی نیٹو چھوڑ سکتا ہے لیکن وہ اپنی اقتصادی شہہ رگ سے دستبردار نہیں ہوگا۔
ابھی یہ جھگڑا جاری ہی تھا کہ 27 نومبر کو ترکی اورلیبیا نے ‘مشترکہ آبی حدود’ کےعنوان سے مفاہمت کی ایک یادداشت یا MOUپر دستخط کردئے۔ استنبول میں صدر ایردوان اور لیبیا کے وزیراعظم فیض السراج کے درمیان طئے پائے والے معاہدے کے مطابق ترکی اور لیبیا کے درمیان واقع سمندر کے جملہ معدنی اور قدرتی وسائل ان دونوں ممالک کی مشترکہ ملکیت ہیں جنکی حفاظت کو یقینی بنانا ترک بحریہ کی ذمہ داری ہوگی ۔
ترکی کے وزیر توانائی جناب فاتح دنمیز نے اعلان کیا کہ جیسے ہی دونوں مملکوں نے MOUکی توثیق کی، ترکی اپنا Yavuz Drillshipکھدائی کیلئے روانہ کردیگا جبکہ اسکی Seismicکشتیاں پہلے ہی سے آزمائش و پیمائش میں مصروف ہیں۔
اس معاہدے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے یونان نے لیبیا کے سفیر کو ملک چھوڑدینے کا حکم دیدیا۔ اسی کے ساتھ یونانی وزیراعظم نے نیٹو کو مطلع کیا ہے کہ وہ خلیج یونان اور وسطی بحر روم میں ملکی مفادات کے تحفظ کیلئے اپنے بحری اثاثے تعینات کررہے ہیں۔ دوسری طرف یونانی قبرص نے ترکی کے خلاف عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان کیا ہے تاہم ترکی امریکہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عالمی عدالت انصاف کو اس معاملے میں ٹانگ نہ اڑانے کا مشورہ دے رہا ہے۔ جنرل السیسی جنھیں صدر ایردوان کی صورت سے بھی نفرت ہے اس تنازعے میں دامے درمے قدمے سخنے یونان کے ساتھ ہیں۔ ترکی اور یونان کے مابین 1974 میں ترک قبرص کے مسئلے پر گھمسان کی جنگ ہوچکی ہے جس میں ترک فوج نے یونانیوں کو سخت نقصان پہنچا یا تھا۔ اب تک اسرائیل نے اپنے سرکاری موقف کا اعلان نہیں کیا تاہم ترکی سے نفرت میں انکی ہمدردی یونان کے ساتھ ہوگی۔ ترک یونان کشیدگی اپنی جگہ لیکن یہ دونوں ملک فلسطینیوں کے پرجوش حامی ہیں اور غزہ سے متصل گیس کے ذخائر کو فلسطینیوں کی ملکیت سمجھتے ہیں۔
دیکھنا ہے کہ صدر ٹرمپ اس تنازعے میں کس کا ساتھ دیتے ہیں۔ امریکی کانگریس ترکی اور صدر ایردوان کی سخت مخالف ہے لیکن صدر ٹرمپ اپنے ترک ہم منصب کے صاف گوئی اور دوٹوک و غیر مبہم لہجے سے بے حد متاثر ہیں۔ انکی کوششوں سے ریپبلکن پارٹی آرمینیانسل کشی کے الزام میں عثمانیو ں کے خلاف مذمتی قرارداد پر فیصلہ کن رائے شماری ملتوی کرچکی ہے۔