534

میں اپنے باپ کی تہمت ہوں….!

“زندگی ایک جہد مسلسل کی طرح کاٹی ہے ”
میں مورت ہوں سو صورت ہوں۔۔۔
میں کتنی حسین بدصورت ہوں۔۔۔
میں اپنی ماں کی چاہت ہوں۔۔۔
میں اپنے باپ کی تہمت ہوں۔۔۔
نایاب علی (خواجہ سرا)

نامہ نگار: اقصیٰ یونس رانا 9 نیوز

“ہم بھی انسان ہیں ”
خواجہ سرا کون ہیں؟ کیا یہ انسان نہیں ہیں؟ کیا عام انسان نہیں؟ کیا انکو عام انسانوں والے حقوق نہیں مل سکتے کبھی؟ کیا انکا زندگی اور اس معاشرے پہ کوئی حق نہیں؟ آئیے آج ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
خواجہ‘ فارسی کا لفظ ہے اور اس کی جمع ’خواجگان‘ ہے۔ خواجہ سردار یا آقا کو کہتے ہیں۔ لغت کے مطابق توران میں سادات کا لقب جیسے خواجہ معین الدین۔ اور خواجہ سرا وہ غلام جو نامرد افراد جو گھروں میں زنانہ کام کرتے تھے۔پرانے وقتوں میں یہ امیروں اور بادشاہوں کے زنانہ محل کی دربانی بھی کرتے تھے اور زنانے میں آنے جانے کی انہیں اجازت بھی ہوتی ہے۔ ان کو محلّی بھی کہتے ہیں۔ ان سے لونڈیوں والے کام لئےجاتے تھے۔بظاہر یہ لوگ رنگ برنگے کپڑوں پہن کر ناچ گانے میں مصروف رہتے ہیں مگر
،کھنکتے پائل اورلڑکھڑاتے بل کھاتے بدن میں زندگی گھسٹتی تو ہے مگر دہکتے انگاروں پہ۔ان کی ظاہری چمک دمک کے پیچھے نجانے کتنی اندوہناک کہانیاں ہیں جنہیں سننے کی سکت شاید ہم میں نہ ہو۔ ہو سکتا ہے ہماری روح ان کہانیوں کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دے۔ایسی کہانیا ں اسی دنیا میں ہمارے ارد گرد موجود ہیں مگر شاید غم کے ان جھروکوں میں جھانکنے کی ہم میں ہمت نہیں۔خواجہ سراکی زندگی کل بھی ایک عذاب مسلسل تھی آج بھی یہ لوگ دھکتے کوئلوں پہ زندگی گزار رہے ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو خوشی منانے کا آغاز ہسپتال سے ہی ہو جاتا ہے ۔مٹھائیوں اور مبارک باد کا ایک طویل سلسلہ بند جاتا ہے ۔ مگر یہاں ایک دل کو ذخمی کرنے والی بات عرض کروں کہ اگر وہی بچہ ہجڑا ہو تو یہ خبر پورے خاندان اور خاص طور پر ماں کیلئے ایک نہ ختم ہونے والے عذاب کی صورت گرتی ہے ۔
پھر اسکے بعد ذلت اور تماشے کا نہ ختم ہونے والا بازار گرم ہو جاتا ہے ۔ مشکلات کا آغاز اسکی پیدائش کی پرچی بنوانے سے شروع ہوجاتا ہے ۔ معزرت کے ساتھ ہم چاہے میٹرو اور اورنج لائن ٹرین پہ سفر کریں ، چاہے ہم انقلاب کے نام پہ عورت مارچ جیسی خرافات کو فروغ دیں، چاہے ٹیکنالوجی کے نام پہ ہم اپنے ہی ملک سے ڈرون بنا کر دوسرے ممالک میں برآمد کریں۔چاہے علاج کی جدید سہولیات متعارف کروادیں مگر اب بھی ہمارے پاس جنس کے نام پہ دو ہی خانے موجود ہیں ۔ میل اور فی میل کا ۔
یہ مشکلات کا سلسلہ یہی پہ نہیں رکتا بلکہ یہ تو نہ ختم ہونے والی جدوجہد اور طویل اذیت ہے ۔ جو پیدائش کے سرٹیفیکیٹ بنوانے سے لے کر اسکا سکول میں داخلے کرانے اور اسکا شناختی کارڈ یا بے فارم بنانے میں پیش آتی ہیں ۔ اول تو ہمارے معاشرے کے اصول و ضوابط اور روایات کے پیش نظر کوئی بھی ہجڑے کو اپنے پاس رکھتا ہی نہیں یہاں تک کہ ماں باپ بھی معاشرے کی روایات کے ڈر سے اپنے بچے کو اپنانے سے انکار کر دیتے ہیں اور انہیں دوسرے خواجہ سراوءں کو سونپ دیتے ہیں ۔ اگر کبھی کوئی ماں ہمت کرکے اپنے بچے کو اپنا کر اسکی تعلیم و تربیت کی کوشش کرے تو اسے تعریف کی بجائے منہ کے بل گرایا جاتا ہے ۔
حیرت ہے کہ اب تک ہمارے انفرا سٹرکچر ، ٹرانسپورٹ، تعلیم اور باقی سب شعبوں میں اتنا کام ہونے کے باوجود کبھی کسی حکومت کے نمائندے، ایم پی اے ، ایم این اے نے آج تک اسمبلی میں کوئی ایسا بل پاس کروانے کی کوشش نہیں کی جس سے پیدائش کے اندراج کے وقت ایک تیسرا خانہ بھی موجو د ہو ۔ انکو انکی قومی پہچان سے محروم رکھا گیا ہے ۔ انکو ووٹ کا حق نہیں دیا گیا ۔ ان سہولتوں کو چھوڑیں ان کو تو انکی بنیادی ضروریات زندگی سے بلکہ انکو تو زندگی کی نعمت سے بھی محروم کیا جاتا رہا ہے ۔
آخر کب تک ہم اللہ سے جنگ کرتے رہیں گے ۔ انکو اللہ نے ہی پیدا کیا وہی انکی زندگی اور موت کا مالک ہے ۔ مگر یہ ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اپنے طور پر انکے لئے آسانیاں پیدا کریں اور جتنا ممکن ہو اپنے حصے کی شمع جلائیں ۔ حکومتی نمائندوں اور ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انکو ایک آزاد شہری ہونے کی حثیت سے انکو زندگی گرارنے کی تمام بنیادی سہولتیں میسر کریں اور انکو معاشرے کا نا گزیر حصہ سمجھ کر انکو قبول کریں ۔

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں