550

موت کا پہلا قاصد

تحریر: سنگین علی زادہ


انڈیا افغانستان میں اپنی ایک ڈویژن فوج بھجوانا چاہتا ہے. کہلوایا افغانستان سے گیا ہے تا کہ پاکستان شور نا کرے. بھلا ہم کیوں شور کریں گے؟ سنو! شکار گاہ میں نئے جانور آئیں تو شکاری خوش ہوتے ہیں شور نہیں کرتے، پریشان نہیں ہوتے.
سنو!
تم لاشیں جلا کے راکھ ندی نالوں میں بہانے والی قوم ہو. نا تمہاری ٹانگوں میں اتنی قوت ہے نا تمہارے کندھوں میں اتنی جان کے جوان لاشوں کا بوجھ اٹھا سکو. تم نے اب تک صرف مندروں کی سریلی گھنٹیاں سُنی اور مندروں میں ناچتی سندر ناریاں دیکھی ہیں. تم نے افغانستان کے میدانوں میں چلتی موت کے قدموں کی آہٹ نہیں سنی اور نا ہی افغانستان کے کہساروں میں ناچتی موت دیکھی ہے.
سنو!
تمہارے فوجی وہ ہیں جو آتی گائے کو دیکھ کر اس کے کھُروں پہ سر رکھ کے روتے اور زندگی کی دعائیں مانگتے ہیں. یہاں کے جنگجو شیر کے جبڑوں میں ہاتھ ڈال کر کلیجہ حلق سے نکال لیتے ہیں. وہ موت پہ ہنستے ہیں اور اِسے محبوبہ کی طرح عزیز رکھتے ہیں.
سنو!
تمہیں ہندو کُش کے پہاڑ یاد ہیں؟ یہاں آنا تو ہندو کُش کا معنی بھی یاد کر کے آنا. اِس کے معنی ہیں ہندو کا خاتمہ کرو. ہندو کُش کے پہاڑ اور ان کے رہنے والے تمہارے منتظر ہیں. ایک نہیں دو ڈویژن بھارتی فوج بھیجو. تابوت البتہ زیادہ تیار کروا لینا اس دفعہ، یہ نا ہو کہ کارگل کی طرح کم پڑ جائیں.
سنو
یہاں آ کر برطانوی روئے تھے اور وہ اپنے وقت کی سپر پاور تھے. یہاں آ کر روسی روئے تھے وہ بھی اپنے وقت کی سپر پاور تھے. یہاں آ کر امریکی بھی رو رہے ہیں اور وہ بھی اپنے وقت کی سپر پاور ہیں. کیا تمہیں ترس نہیں آتا اپنے فوجیوں پہ؟ ترس کھاؤ اُن پر.
سنو!
تمہارے شمشان گھاٹوں میں مُردے جل جائیں تو بچی کھُچی راکھ ہوا اڑا کے لے جاتی ہے. مگر یہاں کے غاروں میں دشمنوں کی لاشوں کا گوشت درندے نوچتے ہیں اور ہڈیاں پڑے پڑے مٹی ہو جاتی ہیں. مگر قبر کی مٹی پھر بھی نصیب نہیں ہو پاتی دشمنوں کو.
سنو اور دھیان سے سنو! یہ گفتگو نہیں تمہاری موت کی سرگوشیاں ہیں.
تم افغانستان آئے تو یہ سرگوشیاں بازگشت بن کے تمہارے چار سُو گونجتی پھریں گی. تم موت سے پہلے کئی مرتبہ موت کے خوف سے مرو گے. یہاں تمہیں ہر وقت موت دکھائی دے گی. چلتی پھرتی، رینگتی اور اڑتی ہوئی موت. تم موت مانگتے پھرو گے مگر موت تم پہ قہقہے لگاتی رہے گی. اور تم سے ایک سوال بار بار پوچھے گی، یہاں مجھ سے پوچھ کر آئے تھے کیا؟
سنو بھارت!
میں موت کا پہلا قاصد بن کر تمہیں یہ پیغام دے رہا ہوں ادھر افغانستان مت آنا. یہاں تمہیں قدم قدم پر موت کے قاصد ملیں گے مگر وہ کوئی پیغام نہیں دیں گے صرف روح قبض کریں گے

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں