
پنجاب پولیس نے وکلاء کی گرفتاریاں شروع کر دی ہیں۔ البتہ جب انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے گا تبھی آپ جان پائیں گے کہ ملک میں انصاف کی فراہمی میں اصل رکاوٹ کونسا ادارہ ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ پولیس کے ان اہلکاروں کی حفاظت کون کرے گا جو گرفتار وکلاء کو عدالت تک لے جانے پر مامور ہوں گے۔ کیا وہ اپنی جان بچا کر عدالتوں سے نکل پائیں گے؟
کیا اپنی باوقار مسند پر بیٹھے منصفین قانون کے مطابق فیصلہ کر پائیں گے؟ کیا واقعی وہ اس گروہی عصبیت سے دامن چھڑا پائیں گے جس نے ایک عفریت کی طرح ہمارے معاشرے کو جکڑا ہوا ہے؟
دل پر جبر کر کے فرض کر لیتے ہیں کہ وہ مقدمہ سنتے وقت قانون کو ہی مدنظر رکھیں گے۔ لیکن پھر اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ انہیں گریبان سے پکڑ کر یا بالوں سے گھسیٹ کر کمرہ عدالت سے باہر نہیں نکال دیا جائے گا اور پھر ان کے کمرے کو تالہ نہیں لگ جائے گا؟
ابھی کچھ دیر قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ہائیکورٹ بار کے سیکرٹری عمیر بلوچ سے درخواست کی کہ میری عدالت میں آپ ہڑتال نہ کریں تو انہیں جواب ملا کہ جب ہم وکلاء تحریک کے دوران عدالتوں میں ہڑتال کیا کرتے تھے تب آپ بھی ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ یہ کہہ کر بار کے سیکرٹری جنرل نے تمام وکلاء کو ان کی عدالت سے باہر نکال دیا۔
چند دن پہلے کی بات ہے کہ فردوس عاشق اعوان کو تین بار توہین عدالت کے نوٹس دیے گئے اور تینوں بار ناک رگڑوا کر ان سے معافی منگوائی گئی۔ فردوس عاشق کی زبان سے نکلنے والے چند الفاظ پر توہین عدالت لاگو ہو سکتی ہے مگر تمام وکلاء کو چیف جسٹس کے سامنے عدالت سے نکال دینے پر ایسا کوئی قانون نافذ نہیں ہوتا۔ جج صاحب ہم عامیوں سے زیادہ اس قانونی نکتے کو سمجھتے ہوں گے۔
جج صاحبان جب مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہوتے ہیں تو انہوں نے انہی عدالتوں میں بطور وکیل پریکٹس کرنی ہوتی ہے۔ وکلاء کے مقدمات میں کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت وہ اس نکتے کو ذہن میں رکھتے ہوں گے ورنہ بعد ازاں ان کے بار میں داخلے پر پابندی کم از کم سزا ہو سکتی ہے۔ ایسے مقدمات جب بھی عدالتوں میں پیش ہوں تو آپ بھی یہ بات ذہن میں رکھا کریں اور زیادہ امیدیں نہ باندھا کریں۔
ہم بطور قوم ہر اچھے کام کی شکل کچھ اس طرح مسخ کر دیتے ہیں کہ بعد ازاں ہم خود بھی اسے پہچان نہیں پاتے۔ وکلاء تحریک آمریت کے خلاف اور جمہوریت کو لوٹانے کے لیے شروع ہوئی تھی لیکن ان خوبصورت خوابوں کی مسخ شدہ تعبیر ہمیں افتخار چوہدری اور ثاقب نثار جیسی شخصیات کے ساتھ ساتھ وکلاء کی غنڈہ گردی کی صورت میں ملی۔
اس تحریک کے دوران قوم کو یقین دلایا گیا تھا کہ کامیابی کی صورت میں ریاست ماں کی طرح شفیق ہو گی۔ بس ایک بات قوم سے چھپا لی گئی تھی اور وہ یہ کہ ریاست صرف وکلاء کے معاملے میں شفقت پر آمادہ ہو گی، باقی عوام کے لیے ایک ظالم سوتیلے باپ سے زیادہ کی امید نہ رکھی جائے۔