معاشرتی بگاڑ کا ذمہ دار کون…؟

معاشرہ انسانوں کا ایک ایسا گروہ جو اس طرح زندگی بسر کرے کہ اس کے ارکان میں گہرا تعلق پیدا ہوجائے۔ سب ایک دوسرے کیلئے ہمدردی و غم گساری، اخوت و محبت بلکہ ایثار و قربانی کا مظاہرہ کریں۔
اس سماج میں اچھائیاں بھی پنپتی ہیں اور برائیاں بھی جنم لیتی ہیں۔
اگر معاشرے میں صرف اچھائیاں ہی اچھائیاں ہو تو وہ معاشرہ مثالی معاشرہ کہلاتا ہے۔
معاشرہ افراد سے ترتیب پاتا ہے اور افراد ہی کسی قوم کا شیرازہ بندی کرتے ہیں۔
بقول ارسطو، انسان سماجی حیوان ہے، یعنی وہ معاشرت پسند ہے۔ اکیلے زندگی نہیں گذار سکتا ۔ اکلوتاپن قیدخانے سے کم نہیں، اور کوئی بھی ذی شعور ایسا نہیں ہے جو خلوت نشینی کی بے بسی کے عذاب کو دعوت دے۔ ایسا کیوں ؟ کیونکہ وہ روزمرہ کی ضروریات، غمی و خوشی میں ایک دوسرے کا محتاج ہے۔
ہم ایک نظریاتی مملکت کے امین ہیں۔ ہماری رگوں میں کلمہء طیبہ کا نور طواف کرتا ہے۔
مگر آج کس کی نظربد ہمیں کھا گئی؟ شاید یہ ہم خود ہی ہیں جو اپنا لاشہ اپنے ہی کندھوں پر اٹھائے اپنی قبریں ڈھونڈ رہے ہیں۔
آج جب ہم معاشرے کا جائزہ لیں تو چاروں طرف بےبسی، بےحسی، ظلم و بربریت، رشوت، ناانصافی، بددیانتی، بذدلی، جاگیرداری، وڈیرانہ نظام،
جوانوں کی جوانی اور بزرگوں کا بڑھاپا سرعام گولیوں کی نظر کیا جارہا ہے۔
خودکش حملوں کی بدولت اسلام کی تصویر بگاڑدی جاتی ہے۔ مائیں بچوں کو درسگاہوں میں بھیجنے سے گھبراتی ہیں۔ اغواء برائے تاوان، ماؤں بہنوں کی عصمتیں سرعام لوٹیں جاتی ہیں۔ تھانوں کی قیمت لگ جاتی ہے۔ عدالتیں بک چکی ہیں۔ حکومتیں، افسران، سیاستدان، صحافی، ججز، وکلا۔۔۔ کون ہے جو نہ بکا ہو؟
پھر کیا ؟ پھر حرص و حوس کا کھیل سرحدوں پر کھیلا جاتا ہے اور اس بارود کی بو ہر گلی، سڑک، شہر قصبے، کونے کونے میں محسوس ہورہی ہت۔
ڈرگ مافیا، کمیشن مافیا، موت مافیا حکومتیں بنانے میں کامیاب ہو چکیں!
مہنگائی اس قدر کہ باپ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کا گلا گھونٹ رہا ہے۔
ماں اپنے نونہالوں کو فروخت کر رہی ہیں۔
اتنا معاشرتی بگاڑ !!!
مگر سوال اب بھی وہی ہے، کہ
اس معاشرتی بگاڑ کا ذمہ دار کون؟
جب میں معاشرتی بگاڑ کے ذمہ داروں کو ڈھونڈنے نکلتی ہوں تو سب سے پہلے اپنے آپ کا چہرہ آتا ہے کہ کیا میں نے معاشرے میں اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا!
ارے کہاں، ہم تو وہ ہیں جو اپنے ملک کے قانون کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہیں۔ ہم تو وہ ہیں جنہوں نے ہر گھر میں مغربی تہذیب کو اپنے اوپر حاوی کرکے بداخلاقی و بے حیائی کو پھیلا رہے ہیں۔
ہمارا ہر شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں بحران نہیں۔ کوئی ایسا محکمہ نہیں جس میں کرپشن نہیں۔ کوئی چیز نہیں جس میں ملاوٹ نہیں۔ کوئی جماعت نہیں جس میں انتشار نہیں۔ کوئی گھر ایسا نہیں جس میں لڑائی نہیں۔ کوئی فرد ایسا نہیں جس میں خودغرضی نہیں۔
ذرا آگے بڑھئے!
ٹی وی، موبائل جنسی بے راہروی کی آماج گاہیں ہیں تو اخبارات فحاشی کے پیغامبر، تقریبات رقص و سرور کی نمائش گاہیں تو مدارس علم و اخلاق کی قتل گاہیں۔
کوئی وطن کے نام پر لوٹ رہا ہے تو کوئی مذہب کے حوالے سے لپیٹ رہا ہے۔ کسی کو وبائی تعصب نے بیمار کر ڈالا ہے تو کسی کو لسانی تعصب نے گرفتار کر رکھا ہے۔ سبھی ایک دوسرے کے دشمن جاں ہیں۔ ایسا لگتا ہے ہم اہل وطن درندے بن چکے ہیں۔
الامان ولحفیظ!
یہ سارا معاشرتی بگاڑ ہے جس نے ہر عام آدمی سے لے کر مقتدر اعلی تک سب کو اپنی اپنی قیمت لگانے پر مجبور کردیا ہے۔
ہم سب ایک ایک فرد معاشرتی بگاڑ کا ذمہ دار ہے۔ لیکن اس معاشرتی بگاڑ کا سدباب ہر ایک فرد کے ہاتھ میں ہے۔ ہم چاہیں تو اسے بگاڑ بھی سکتے ہیں اور ہم چاہیں تو اسے امن و سکون کا گہوارہ بھی بنا سکتے ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ استاد سے لے کر شاگرد تک، عالم سے لے کر طالب علم تک، افسر سے لے کر ملازم تک، کسان سے لے کر مزدور تک، حکمران سے لے کر گاڑی بان تک، ہم سب برائی کو برائی سمجھیں اور اچھائی کو فروغ دیں۔
ہمیں چاہئیے اپنے اندر تمام بداخلاقیوں، کو ختم کر کے حسن اخلاق کے پیکر بن جائیں !
اخلاق ہی میں وہ ہر عمل شامل ہے، جو دین اسلام کی رو سے اچھائی ہے۔ ہمیں چاہئیے اپنے اندر امانت و دیانت، صدق و صفا، عجز و انکساری، عدل و انصاف، شرافت و سادگی، مساوات و برابری، علم و حیا، عزت و خدمت، اخوت و بھائی چارہ،
غرض ہر نیکی کو اپنائیں اور اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں تو معاشرے میں بگاڑ کا کیا کام !
از قلم: اقراء مو’سی