
اٹک کی اسسٹنٹ کمشنر پر جو بیتی اس کے پیچھے ان کا عورت ہونا ایک بہت بڑی وجہ تھی۔ اگر یہی بات کوئی مرد ڈپٹی کمشنر کہتا تو زیادہ مسئلہ نہ ہوتا۔ ایک خاتون کا بڑے عہدے پر فائز ہونا ہماری مردانہ انا پر تازیانے کی طرح لگتا ہے۔
جاب کرنے والی خواتین کو کیسے کیسے مسائل درپیش رہتے ہیں اس کا مکمل ادراک مرد کے لیے ممکن نہیں۔ ہم صرف ادھورے اندازے لگا سکتے ہیں۔ لیکن اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔
مرد کا عہدہ جسقدر بڑھتا ہے اسی قدر وہ مضبوط ہوتا جاتا ہے، اس کے اردگرد موجود لوگ ایک حصار بنانے لگتے ہیں جو اختیار بڑھنے کے ساتھ ساتھ وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔
خواتین کے ساتھ صورتحال ایسی نہیں ہوتی۔ جتنا ان کا عہدہ اور اختیار بڑھتا ہے اسی تناسب سے وہ غیر محفوظ ہوتی جاتی ہیں کیونکہ ان کے افسروں اور ماتحتوں سمیت اردگرد کے تمام افراد میں کسی نہ کسی سطح پر مردانہ حاکمیت اور خواتین کے گھر تک محدود رہنے کا کلچر رچا ہوتا ہے جسے سامنے آنے کے لیے ایک بہانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اٹک کی خاتون افسر کے ساتھ جو لوگ سوال و جواب کر رہے تھے ان کے مذہبی جذبات کی ڈھال کے پیچھے ایک عورت کے طاقتور ہونے اور گھر سے باہر نکلنے کے تصور سے نفرت کارفرما تھی جبکہ اس خوفزدہ اسسٹنٹ کمشنر کی وضاحتوں کے پیچھے وہ عدم تحفظ جھلک رہا تھا جسے صدیوں کے جبر نے جبلت کی صورت میں ہر عورت کی ذات کا حصہ بنا دیا ہے۔