566

“عوام کی ذہن سازی میں میڈیا کا کردار”

نامہ نگار،ڈائریکٹر جنرل: عقیلہ رضا

انسان کی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ قصے کہانیاں بہت شوق سے سنتا ہے۔زمانہ قدیم میں ہر علاقے میں قصے اور کہانیاں بیان کرنے والے موجود ہوتے تھے جو گزرے ہوۓ واقعات،سفر کی داستانیں خوبصورت انداز میں سنانے کے ماہر ہوا کرتے تھے،تمام لوگ اپنے کاموں سے فارغ ہو کر اس کہانی گو کے گرد جمع ہو کر اس سے نہایت دلچسپی سے کہانیاں سنا کرتے تھے،وہ کہانیاں ہر شخص کے ذہن پر اپنا اثر چھوڑتی تھیں۔وقت بدلا اور قصے بیان کرنے والوں کی جگہ کتاب نے لے لی،ایک طویل عرصے تک لوگ ایسی کتابوں کے سحر میں مبتلا رہے جن میں واقعات کو دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہو،وقت ایک بار پھر بدلا اور ٹی وی کا دور شروع ہوا،لوگ اس نئی ٹیکنالوجی کے سحر میں ایسے جکڑے کہ آج اس ٹیکنالوجی نے انسان کے ذہن سے کھیلنا شروع کردیا ہے۔چینلز کی بھرمار جس میں ہر طرح کے بے ہودہ پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔
آج ہمارا میڈیا اتنا بے باک ہے کہ وہ کھلم کھلا اپنے ڈراموں،فلموں اور انٹرٹینمنٹ کے نام پر پیش کیے گۓ پروگرامز میں شعائر اسلام کا مذاق بڑے فخر سے اڑاتا ہے،پہلے پہل تو عوام کی طرف سے احتجاج دیکھنے اور سننے کو مل جاتا تھا مگر اب تو وہ بھی شاذونادر ہی ہوتا ہے۔
ہمارا میڈیا عوام کو اپنے ڈراموں اور فلموں سے یہ تاثر دے رہا ہے کہ دھوکا دینا، زنا کرنا،شراب پینا اور گھر سے بھاگ جانا زندگی میں انجواۓ منٹ کرنے کے لیے ضروری لوازمات ہیں۔میڈیا کا مقصد بے حیائی پھیلانا، اسلامی تعلیمات کو غلط ثابت کرنا ہے جس کی مثال ڈراموں میں کبھی بتوں کی مورتیاں سجا کر کبھی طلاق و عدت کا مذاق اڑا کر،کبھی زنا کو خوبصورتی کے ساتھ غلطی اور بے وفائی کا نام دے کر کیا جاتا ہے۔
کیا ہمارا مذہب ہمارے لیے اہم نہیں ہے کہ میڈیا دن رات اسلام کے خلاف مواد نشر کرتا ہے اور ہم اس میڈیا کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں،یورپ میں جب گستاخی کی جاتی ہے تو ہم سوشل میڈیا پر طوفان برپا کردیتے ہیں،سوشل ایکٹیوسٹ ٹرینڈ پر ٹرینڈ کرتے ہیں کیا ان سب کو اپنے گھر(ملک)میں میڈیا کی گستاخیاں نظر نہیں آتیں،ان گستاخیوں کے خلاف کب آواز بلند کریں گے،ناروے و ہالینڈ کے بائیکاٹ کا نعرہ بلند کرنے والے اپنے میڈیا کے بائیکاٹ کا نعرہ کب بلند کریں گے،ہماری خاموشی ہی کے باعث “زندگی تماشہ” جیسی فلمیں بن رہیں ہیں جس میں نشانہ اسلام،مساجد،مدارس اور نعت خواں کو بنایا گیا ہے،اس بات سے انکار نہیں ہے کہ مدارس اور مساجد میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات سامنے آۓ ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر مسجد و مدرسہ میں یہ ہوتا ہے،کیا اسکول و کالج اور یونیورسٹی میں یہ سب نہیں ہوتا؟ہوتا ہے اور اس سے بڑی تعداد میں ہوتا ہے،تو بجاۓ اسلام کو نشانہ بنانے کہ ان درندوں کو نشانہ بنایا جاۓ،اسلام سے دور بھاگنے کے بجاۓ ان درندوں کو اپنے معاشرے سے دور کرنے کے اسباب اختیار کیے جائیں ۔

ہمیں میڈیا جیسا دیکھاتا ہے ہم دیکھتے ہیں اور ہمارا ایسے مواد کے خلاف آواز نہ اٹھانا میڈیا کی حوصلہ افزائی ہے۔یاد رکھیں آج میڈیا پر پیش کی جانے والی کہانیاں جو ڈراموں اور فلموں کی صورت میں ہیں یہ ہماری نسل کو اسلام سے باغی کر رہیں ہیں،جو شخص اسلام سے باغی ہوگا ظاہر ہے وہ اپنے ملک سے بھی باغی ہوگا اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
بھارت اپنے میڈیا کے ذریعے اپنے کلچر و ہندو ازم کو فروغ دے رہا ہے،مسلمانوں کے خلاف فلمیں بنائی جا رہیں ہیں،اسی طرح ہالی وڈ میں بھی یہی ہو رہا ہے کہ اپنا نظریہ اور سوچ وہ اپنی فلموں کے ذریعے لوگوں کے دماغوں میں ڈال رہے ہیں، اور ہمارا میڈیا کیا دیکھا رہا ہے کہ “لڑکی کو کیسے پھسایا جاۓ،مرد کو کس طرح قابو کرنا چاہیے۔۔۔۔افسوس!
یہاں میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان کو مبارک باد پیش کرتی ہوں جنھوں نے ایک شاندار قدم اٹھایا اور میڈیا وار میں بہترین مقابلہ کیا”دیرلیش ارطغرل” نے۔جسے نہ صرف مسلم ممالک بلکہ یورپ و اسرائیل میں بھی بہت شوق سے دیکھا گیا،ایک ایسا ڈرامہ جس نے بتایا کہ مسلمان کیا ہے،اسلامی تعلیمات کتنی خوبصورت ہیں،ایک مسلمان مرد کیسا ہوتا ہے،ایک مسلمان عورت جب نکاح کرتی ہے تو وہ اپنے گھر کی ذمہ دارایوں کو کس احسن انداز میں سرانجام دیتی ہے۔

اس ڈرامے نے ایسا تاثر چھوڑا کہ کئی غیر مسلم جوڑے دائرہ اسلام میں داخل ہو گۓ۔
کہا جاتا ہے کہ اس ڈرامے نے ہالی وڈ کی اہم سیریز کے بھی ریکارڈ توڑ دیۓ ہیں یہی وجہ ہے کہ “ارطغرل غازی” کے بعد اب انکے بیٹے “عثمان غازی” (جنھوں نے سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی)پر سیریز ترکی میں پیش کی جارہی ہے جو بہت زیادہ پسند کی جارہی ہے۔
ہمارا میڈیا نہیں جاگے گا بلکہ ہمیں جاگنا پڑے گا،ہماری تاریخ بھی ایسی ہستیوں سے بھری پڑی ہے جن کے حالات پر ہم بھی سیریز بنا سکیں اور یہ جب ہوگا جب ہم اپنے میڈیا کے بے ہودہ ڈاموں اور فلموں کا بائیکاٹ کریں۔
ففتھ جنریشن وار یہی ہے مگر افسوس کہ ہمارے میڈیا مالکان اس ففتھ جنریشن وار کا مقابلہ کرنے کے بجاۓ ملک دشمنوں کے پیسوں سے اپنے میڈیا ہاؤس چلا کر دشمن کا نظریہ و سوچ عوام کے دماغ میں ڈالنے کا کام بڑی خوبصورتی اور تیزی سے کر رہے ہیں۔میڈیا قوموں کے کردار میں بہت اہم رول ادا کرتا ہے جبکہ ہمارا میڈیا صرف معاشرے میں بے حیائی،اسلام سے بیزاری اور دشمن کا نظریہ و سوچ پھیلانے کا سبب بن رہا ہے جس کے باعث خواتین و بچوں سے زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔۔۔۔۔کاش کہ ہم بھی اس میڈیا وار کا مقابلہ کر سکیں۔
اللہﷻ میرے ملک پر اپنا رحم فرماۓـ آمین

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں