
“شکل دیکھی ھے اپنی”
عطا اللّه خان عیسی خیلوی اور مستنصر حسین تارڑ کی پی ٹی وی کے کسی پروگرام میں ہلکی پھلکی نوک جھونک جاری تھی ۔۔ ۔ تارڑ صاحب نے سوال کیا کیا کہ ” یہ جوآپ کے گانوں میں اذیت ھے یعنی سنگلوں سے مارنے والی اور یہ جو ہجر اور فراق ھے. . . یہ کوئی اپنے آپ تو نہیں هو جاتا ۔ ۔ ۔ بس یہ بتایں کہ یہ کس کا ہجر و فراق ھے ۔ ۔ ۔؟؟؟”
عطا اللہ خان بولے کہ آپ کی اس بات سے ایک دلچسپ واقعہ یاد آ گیا ۔ ۔
ان ھی کی زبانی سنئیے ۔ ۔ ۔ کہتے ہیں کہ ” میں کچھ عرصہ اسلام آباد میں بھی رہا ہوں ۔ وہاں پی ٹی وی کے کسی پروگرام میں میرا یہی گانا ریکارڈ ہوا کے
” بالو بتیاں وے ماہی میکوں مارو سنگلاں نال ۔ ۔” ریکارڈنگ ٹی وی پہ چلائی گئی تو ایک دن رات دو بجے مجھے فون آیا ۔ ۔ ۔ دوسری طرف سے ایک نسوانی آواز تھی ۔ ۔ ۔ میں ان دنوں سنگل بھی تھا اس لئے تھوڑا الرٹ هو گیا ۔ ۔ ۔ خاتون کہنے لگی کہ میں نے آپ کا گانا سنا مگر ایک شعر کی سمجھ نہیں آئی ۔ ۔ ۔ اگر آپ سمجھا دیتے تو ۔ ۔ ۔
کہنے لگے کہ میں نے کہا کہ خاتون رات کے دو بج رہے ہیں ۔ پھر بھی آپ بتائیں ۔ ۔ کوشش کروں گا کہ سمجھا سکوں ۔ ۔ ۔
خاتون بولیں کے اس شعر کا مطلب بتائیں کہ
” میں اتھاں تے ڈھولا واں تے ۔۔
میں سمّاں ڈھولے دی بانہہ تے۔ ۔ “
کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ اصل میں ڈھولے ماہیے کا پہلا مصرع بے معنی سا ہوتا ھے صرف قافیہ ردیف ملانے کے لئے استعمال ہوتا ھے اور دوسرا مصرع بڑا جاندار ہوتا ھے جیسا کہ اس شعر میں ھے۔ ۔ ۔ ویسے “واں” ہمارے علاقے میں ایک چھوٹا سا گاؤں ھے ۔ ۔۔ بہرحال شعر کا مطلب یہ ھے کہ میں کہیں اور ہوں اور میرا محبوب کہیں اور ھے ۔ ۔ ۔ میرا جی بڑی شدت سے چاہتا ھے کہ میں اپنے محبوب کے بازو پہ سر رکھوں اور سو جاؤں ۔۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ۔ ۔
کہتے ہیں کہ خاتون بڑے تحمل سے میری بات سنتی رہیں ۔۔ ۔ ۔ جب میں خاموش ہوا تو خاتون فی الفور گویا ہوئیں ۔۔ ۔ ۔
“شکل دیکھی ھے اپنی ۔ ۔ ۔”
اور کھٹاک سے فون بند کر دیا ۔ 🤭😁