571

ذراعت، کسان اور پاکستان

‏زراعت کسان اور پاکستان
پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔زراعت کو پاکستان کی معیشیت کیلیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند سمجھا جاتا ہے۔زراعت میں تقویت ہو تو معیشیت مستحکم ہوتی ہے جبکہ زراعت میں انحطاط سے معاشی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے

نامہ نگار: سویرا اشرف۔ 9 نیوز

زراعت بالواسطہ اور بلواسطہ طور پر کئی صنعتوں کیلئے خام مال فراہم کرتی ہے۔صنعتوں کا انحصار بھی زراعت پر ہے۔آج تک کتابوں میں زراعت اور پاکستان کے بارے میں پڑھتے آ رہے ہیں لیکن اس فصل کو اگانے اور کاٹنے والوں کے بارے میں کب بات ہو گی? انکے حقوق پر کب بات کیجاۓ گی
کبھی کسی کسان کی زندگی کو جانچنے اور دیکھنے کی کوشش کیجیے ہر کسان کنالوں اور مربعوں کا مالک نہیں ہوتا۔زیادہ تر کسان ایسے ہیں جن کے پاس صرف زمین کا چھوٹا ٹکڑا ہوتا ہے جسے ان لوگوں نے اپنی روزی روٹی کا ذریعہ بنایا ہوتا ہے،وہ سفید پوش لوگ کس کسمپرسی میں زندگی گزارتے ہیں صرف وہی سمجھ سکتے جنکا اس شعبے سے تعلق ہے۔

کسان گندم،چاول، کپاس،گنے،چنے اور لاتعداد انواع اقسام کی فصلیں اگاتے ہیں، کئی کئی مہینے اس پر صرف کرتے ہیں،دن رات اسکا خیال رکھتے ھیں،لیکن جب انکی محنت کا صلہ ملنے کا وقت آتا ہے تو فصلوں کے سرکاری ریٹ بہت کم رکھے جاتے ہیں اور جب وہ فصل زمینداروں کے گھر سے نکل کر حکومتی نماٸندگان کے ہاتھوں میں پہنچتی ہے تو اسی فصل کا ریٹ آسمانوں کو چھو جاتا ہے

کچھ زمیندار ایسے بھی ہوتے ہیں جو قرض لیکر فصل اگانے کا انتظام کرتے ہیں اور فصل پکنے کے بعد وصول ہونے والے پیسوں سے قرضہ اتار کر باقی بچے ہوۓ پیسوں سے گھر کا نظام چلاتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔انکے پاس وساٸل کی بے حد کمی ہوتی ہے،بچوں کے تعلیمی اخراجات،گھریلو اخراجات،بجلی،گیس،پانی کے بل وغیرہ جیسے اخراجات پورے کرنا تو اس مہنگائی کے دور میں اچھے بھلے انسان کیلیے نا ممکن ہے۔
کسانوں پر کبھی کوئی نا گہانی آفت آجاۓ،کوئی بیمار ہو جاۓ تو انکے پاس اس سے نمٹنے کیلیے وساٸل نہیں ہوتے
کرونا اور ٹڈی دل کی وجہ سے کسانوں نے ایک مشکل وقت گزارا ہے،حکومتی نمائندگان نے ٹڈی دل کیلیے سپرے تو کردیے لیکن انکے لیے کسی امدای پیکج کا اعلان نہیں کیا گیا
حکومت کوئی بھی ہو لیکن آج تک کسی حکومت نے اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی اور اس ملک کی زراعت کو مستحکم کرنے والے کسان کے بارے میں نہیں سوچا،ہر حکومت الیکشن سے پہلے کسانوں کے بارے میں زوروشور سے تقاریر کرتی ہے اور یوں لگتا ہے آنے والی حکومت میں کسانوں کی قسمت بدل جاۓ گی وہ زمین سے آسمان پر پہنچ جاۓ گے لیکن الیکشن ہونے کے بعد کون تو کون میں والا حساب شروع ہو جاتا ہے
پھر یہی کسان اپنے مطالبات کیلیے سڑکوں پر آتے ہیں جب انکی کہیں شنوائی نہیں ہوتی تو وہ اپنا حق لینے کیلیے اربابِ اختیار کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور جواب میں انہیں ڈنڈے،آنسو گیس، شیلنگ،جیل میں رہنے کی ندامت اور نا جانے کیا کچھ جھیلنا پڑتا ہے
ہمارے ملک میں زراعت کے حوالے سے ایک المیہ یہ رہا ہے کہ ہم نے روایتی طریقوں سے ہٹ کر اس کے جدید اور تحقیقی نظام پر کام کرنے کی کوشش نہیں کی،عالمی منڈیوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔
ہمارا ہمسایہ ملک جو ہر فصل کے اعتبار سے عالمی اجناس منڈیوں میں اپنا ایک مقام بنا چکا ہے اور زرمبادلہ حاصل کررہا ہے لیکن پاکستان جو کبھی چاول،گندم اور کپاس جیسے فصلوں کی برآمدات کی وجہ سے عالمی اجناس منڈیوں میں ممتاز مقام رکھتا تھا اب اس دوڑ سے بھی باہر ہو چکا ھے۔
بھارت اپنی آمدنی کا 2.5 فیصد جبکہ پاکستان اپنی آمدنی کا 0.4 فیصد زراعت پر خرچ کرتا ہے جو بھارت کے مقابلے میں 7 گنا کم ہے۔بھارت اپنے کاشتکاروں کو بجلی پر اربوں روپے کی سبسڈی دے رہا ہے۔وہاں ڈے اے پی کھاد کی قیمت 1500 جبکہ پاکستان میں 3700 کے قریب ہے.اسکے علاوہ پاکستان میں زراعت کیلیے بجلی،کھاد،بیج بہت مہنگے ہیں اور ان پر بے شمار ٹیکسز ہے جسکا بوجھ زمینداروں اور کسانوں پر پڑتا ہے
زراعت کا محکمہ بالکل غیر فعال نظر آرہا ہے اپنی کوتاہیوں سے کچھ سیکھنے کی بجاۓ انہیں نظر انداز کیا جارہا ہے جس کے منفی اثرات آنے والے وقت میں دکھاٸی دیں گے
پاکستان میں زراعت عدم توجہ کا شکار ہو چکی ہے جس کی وجہ سے زرعی زمینیں ہاوسنگ سوساٸٹیز میں تبدیل ہوتی جارہی ہیں اور زمینوں قیمت آسمانوں کو چھو رہی ہے
پاکستان کے 60 فیصد پارلیمنٹرینز کا تعلق دیہاتوں اور زمیندار گھرانوں سے ہے لیکن یہی لوگ کسانوں کے حقوق کے بارے میں آواز اٹھانے اور قانون سازی کرنے سے قاصر ہیں
حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو مار پیٹ کی بجاۓ انکے مطالبات سنے انہیں سستی کھاد،سستے بیج اور فصل اگانے کیلیے دوسری ضروری اشیا مہیا کرے اور بجلی،تیل،گیس اور ٹریکٹرز کی قیمتوں میں کمی کرے،زرعی اصطاحات کیجاۓ،زراعت کے جدید نظام کو ممتعارف کروایا جاۓ تا کہ کسان اس شعبے سے بھاگ کر اپنی زمینوں کو پلاٹوں اور سوساٸٹیز میں تبدیل کرنے سے باز رہیں

9news
Follow
Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں