538

حرام خور (افسانہ)

سعدیہ نذیر

اس بار پنڈ کا جاڑا اور بھی جان لیوا تھا۔ جیسے جیسے رات ڈھلتی تھی رگوں میں خون جمتا تھا۔ رات کے 9 بجے تھے۔ پگڈنڈی چپ چاپ سو رہی تھی۔ پہلے تو کبھی کبھار کتے بھونکتے تھے جیسے میلوں دور اپنا ہی کوئی جہان بستا ہو ان کا جہاں انسانوں کو جانے کی اجازت نہ ہو۔ شبنم کے قطروں نے بھی جاڑے سے دوستی کرلی۔ سیلن تو نام کو نہیں۔ ہر شے جاڑے کی ساتھی بن گئی۔ ہر کوئی وقت سے پہلے ہی لحافوں میں جا گھسا۔ لحاف بیچارہ تو خود سردی سے ٹھٹھر رہا ہے۔

اسے کیا پڑی ہے کہ لپک کر جاڑے میں پالا خریدے۔ کون گھاٹے کا سودا کرتا ہے بھلا۔ اپنی آہوں سے سینکنا پڑتا ہے رضائی کو۔ جتنا دل سلگے گا اتنی جلدی لحاف تپ جائے گا۔ اگر پھر بھی من جلتا ہے تو منڈیر پہ رکھ چھوڑو۔ اپنے آپ سکڑ جائے گا تو قرار آئے گا اسکو۔ امتل اپنے ہی خیالوں کی دنیا میں گم تھی۔ 1980 میں کھڑی کی گئی مولوی بدردین کی حویلی جتنی بوسیدہ اور کھوکھلی ہو چکی تھی اتنے ہی اس کے رسم و رواج بھی جو 25 سالا امتل کے پاٶں کی بیڑی تھے۔

سوہنی چنری میں لپٹی شہزادی بنی پلاسٹک کی گڑیا امتل پچھلے جاڑے میں ہی اس حویلی کی دلہن بنی تھی۔ بیاہ لوگوں سے ہوا تھا اسکا۔ پورے ٹبر سے حویلی کی اونچی اونچی دیواروں سے۔ پتہ نہیں کون کون سے جھوٹے عہدو پیماں رسمیں وعدے تہذیب کی بیڑیاں سب زیور کاسا طوق بن کر اس کے گلے کا ہار ہو گئے اور وہ سجی سنوری دلہن بنی بیٹھ رہی۔ امتل شہزادی کی ڈولی جس دن گھر سے اٹھی تھی اسی دن اپنے سارے ارمان اس نے گرہ بند تعویز لگا کر ڈولی کی مڈھ سے باندھ دیے تھے جب وہ ساری رات چیختی چلّاتی رہی تھی امّاں نے اس کے بازو کپڑے سے باندھ دیے اور اک لیر اس کے حلق میں ٹھونس دی۔

ابّا نے اپنی پگڑی کا لیڑا اس کے پاٶں میں رکھ دیا تھا اور ہاتھ جوڑدیے تھے ”میری بنتی سن لے میری شہزادیوں جیسی امتل شہزادی گھر میں کھانے کو دو وقت کی روٹی پوری نہیں ہوتی توسب جانتی ہے میں کہاں سے لاٶں گا جہیز۔ عزت دار مولوی گھرانہ پیسے والے اور کیا چاہیے تجھے۔ پتر بندے دا نرخ ویکھدے لوکی۔ اوھدا مکھڑا نئیں۔ کی ہویا 36 سال وڈّا اے۔ مرد دا بچہ اے۔ ہر کوئی جھک کے سلام کردا ہے اسکو۔ اّماں نے حلق سے کپڑا نکال پھینکا تو امتل ابلتے لاوے کی طرح پھٹ پڑی۔

میں خود کشی کرلوں گی ابّا۔ مجھ پہ یہ ظلم نہ کر۔ ”۔ “ کتّیا۔ بھونکتی چلی جارہی ہے۔ پورے پنڈ نے سن لی ہے اس کی دھمکیاں۔ کپا والا سپرے ڈھونڈتی پھرتی ہے اس کے منہ میں خود ڈالوں گی میں چوہے مارنے کی دوا۔ نہیں چاہیے ایسی بے حیا اولاد۔ ارے اندھی ہے دیکھ نہیں رہی ہے پیو کے سر کا صافہ تیر ے پیروں کو چھو رہا ہے کج شرم حیا ہے کہ نئیں۔ اس دن کو بڑا کیا تھا تجھے۔ ”۔ “ تو چپ کر میں سمجھاتا ہوں اسے۔ سن شہزادی میری پیاری شہزادی امتل۔

تو میری سوہنی شہزادی ہے۔ دیکھ اتنے برس کبھی برا کیا میں نے۔ تیرا بابا کبھی برا ہونے دیگا تیرے ساتھ۔ تو تو میری جند جان ہے میرے جگر کا ٹکڑا۔ تو تو کملی ہوگئی ہے کھول چنی اس کے بازو سے میری نازک بٹیا کے ہاتھ دکھتے ہوں گے۔ میری بیٹی ہے۔ میں جانتا ہوں مجھے انکار نہ کرے گی۔ میرا خون ہے۔ تو سوچ لے بیٹا کوئی زبردستی نہیں ہے۔ میرا صافہ تیرے پاٶں میں ہی پڑا ہے۔ دیکھ اچھے سے سوچ لینا۔ امتل شہزادی ابّا کا صافہ آنکھوں سے لگائے ساری رات چھوٹے بچے کی طرح بلکتی رہی۔

پگڑی آنسوٶں سے بھیگ گئی۔ ۔ ”24 برس کی گڑیا 60 برس کا بڈّھا یہ کاہے کا جوڑ ہے۔ بیچاری۔ “ پنڈ کی چھوریاں اس کے اندر دبی آگ پھر سے کریدنے لگیں۔ بھانپ گئیں اس کے دل کی ہوک جو بجھتے کوئلے سا دھواں دے رہی تھی۔ دکھتے کوئلے ٹھنڈے کیسے پڑتے۔ بیاہ کارش کم ہوا جوانی بڑھاپے کا ملن ہو بھی گیا جیسے کوئلوں میں اک جلتی بجھتی چنگاری ٹھنڈی پڑ گئی ہو دہکتے کوئلوں کی آگ بھی۔ انگھیٹی میں بھی آگ بجھنے کو تھی جب اس کے سرکے تاج نے مزید کوئلے ڈالنے کا حکم نامہ جاری کیا۔

امتل چمٹے سے آگ سمیٹنے لگی اور دہکتے کوئلے انگیٹھی میں پلٹ دیے۔ ابلتے انڈوں کو جوش آرہا تھا دیگچی اتار کر چادر میں انڈہ لپیٹ کر چھلکے کو باریک جھِلّی سے الگ کرتی جاتی ہاتھ جلتا جاتا کبھی ہاتھ کو سہلاتی کبھی چادر میں چھپاتی۔ انڈے اپنے سرتاج کے آگے رکھ کر ٹکٹکی باندھ کہ انگھیٹی میں دہکتے کوئلوں کو تاڑنے لگی۔ اس بڑھاپے میں بدردین کے سبھی دانت ٹوٹنے کو تھے انڈے کی سفیدی رال بن کر کوئلوں میں بہنے لگی سفیدی مائل بھاپ کوئلوں کے ساتھ دہکتی جاتی اور بجھتی جاتی۔

امتل نے اک نظر اس کے چہرے پر ڈالی اور اک انگیٹھی میں جلنے بجھنے والی انڈوں کی رال پر۔ جاڑے میں کوئلے اور اس کے ارماں ایک ساتھ سُلگ رہے تھے۔ اپنے عمر رسیدہ شوہر کی آنکھوں میں اسے ارمانوں کی آگ کہیں دکھائی نہ پڑتی تھی۔ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے والا وارث کو ترس رہاتھا۔ اگلا جاڑا آیا تو وارث بھی آگیا۔ بیٹا ہوا ہے سب نے مبارکبادی دی۔ 4 مہینے میں سر کا سائیں کولہے کی ہڈی ٹوٹنے سے چل بسا۔ جوان بیوہ یتیم بچہ اور بدردین کی نیک نامیاں کہنے سننے کو بہت قصّے تھے۔

5 برس یونہی بیت گئے۔ امّاں ابّا کی نصیحتیں اور زمانے والوں کی جھوٹی تسلّیاں۔ تو اکیلی نہیں ہے۔ تیرے پاس گھر ہے بچہ ہے یہ گھر بھی تو اسی کی نشانی ہے تیرے سر چھپانے کی جگہ اس کی قدر جان۔ ہر جاڑے میں اپنی حسرتوں کو کوئلے کی انگھیٹی میں جھونکتی رہی تھی امتل شہزادی۔ لکڑی کا اک نازک تیلا لے کر گھنٹوں ایسے آگ پھرولتی جیسے انگاروں میں کھو گیا ہو کچھ۔ جہاں کوئی چنگاری دہکتی لکڑی کے دہانے سے سر کچل دیتی اسکا۔

جب سب راکھ ہو جاتا تو ہی اس کے دل کو چین ملتا۔ اک دن اسے پتہ نہیں کیا سوجھی اپنی سہیلی سے کہنے لگی۔ اک بات تو بتاٶ؟ کیا کوئی چور رستہ ارمانوں کی دہلیز کو جاتا ہے؟ رضیا جھٹ پٹ بولی مولوی گھرانے کی بہو۔ شرم کیا طاق میں رکھ چھوڑی ہے۔ ایسی بات سوچ میں آئی کیوں تمہارے۔ دیواروں کے تو کان ہوتے ہی ہیں۔ سوچوں کے بھی دربان ہوتے ہیں۔ شیطان سوار ہو گیا ہے کیا۔ نماز روزہ نہیں کرتی کیا۔ ”اس چھوٹے میاں نے سب بھلا دیا ہے مجھے۔

”امتل شرمندہ ہو کر بولی۔ ارے نہ سوچا کر ایسا نماز روزے کی پابندی کیا کر بُرے خیالات ٹلتے رہیں گے۔ ٹھیک کہتی ہے تو۔ امتل کو پھر چپ لگ گئی۔ انہی آہوں میں یہ جاڑا بھی نکل گیا۔ اگلے جاڑے نے ایسے دستک دی جیسے کسی اجنبی نے دروازے پر دستک دی ہو۔ حویلی کی زمانے سے اونچی دیواریں پھلانگ کر گھس آیا ہو جیسے کوئی۔ اس کی سواری حویلی کے پچھواڑے خودرو جھاڑیوں میں پہرا دیتی رہتی۔ موٹر کو انسانوں والی دو آنکھیں لگی تھیں۔

ایک طرف گھر کی مالکن اور دوسری طرف موٹر کا مالک اور درمیان میں حویلی کی رسموں کی چوکھٹ۔ اپنی خوابگاہ کا رستہ اک اجنبی کو دکھانے والی بدردین کی نیک نامیوں سے بھری حویلی میں حرام کا نوالہ کھانے والی امتل شہزادی نے چودہ راتوں میں زندگی جینے کے سارے گُر سیکھ لئے۔ سلگتے جسموں کی بھٹی میں رسمیں عزت انا رواج سب راکھ ہو گئے۔ لیکن اک دن سارے چور رستے بند ہوگئے۔ موٹر کار نے اپنی آنکھیں موند لیں۔ برتن چھلک گیا تھا۔

وقت نے اپنی کرنی کر دکھائی۔ وہ تو بدیسی تھا اس نے نیا ٹھکانہ ڈھونڈ لیا امتل اپنی نظروں میں گر گئی۔ 10 برس بیت گئے اس بات کو۔ اولاد جوان ہونے کو آئی۔ کمر میں بھی خم آگیا۔ مگر یہی بات سوچتے سوچتے زندگی کا دھارا چلتا رہا۔ کہ وہ کیا سمجھائے خود کو۔ عمر بھر کا پچھتاوا بنا کر گلے سے لگائے یا سر کا تاج کہ انہیں چودہ راتوں میں اس نے پوری زندگی جی ہے۔ زندگی کے سارے گُر۔ زندگی کا ہنر سیکھا ہے۔ اسے سر کا سہرا بنا کر سر اٹھا کر چلے گی۔ منتیں مانے گی۔ چڑھاوے چڑھائے گی۔ اسے ارمانوں کا کلیسا ملا ہے۔ یہ دل کا دربار ہے۔

9news
Follow
Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں