378

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی المیہ جا جنم۔۔۔

گلزار گیلانی
بیورو چیف 9 نیوز اسلام آباد
مقبوضہ کشمیر لاک ڈاؤن

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی المیہ کا جنم
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ا نسانی المیہ جنم لے چکا ہے امریکی روز نامہ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق پانچ اگست کو بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد مواصلاتی رابطوں پرپابندی کیو جہ سے درجنوں مریض ایمبولینس نہ بلاپانے کے باعث جاں بحق ہو ئے ہیں۔ رپورٹ مِیں نیویارک ٹائمز کے نمائندے نے سری نگر کے کئی ڈاکٹروں سے گفتگو کے دوران یہ جاننے کی کوشش کی کہ وادی میں ٹیلی فون اور موبائل سروس کی معطلی کے بعد لوگ طبی امداد تک کیسے رسائی حاصل کرپا رہے ہیں۔ا س رپورٹ مِیں ساجا بیگم کی کہانی بیان کی گئی ہے جس کے بائیس سالہ بیٹے کو زہریلے سانپ نے کاٹ لیا لیکن فون کی سہولت میسر نہ ہونے کے باعث وہ ایمبولینس نہ بلا پائی۔ کئی لوگوں سے مدد مانگنے کے بعد وہ بالاخر سری نگر کے ایک ہسپتال پہنچی لیکن اس کا بیٹا جانب رنہ ہو سکا۔ اسی طرح ایک شادی شدہ جوڑا جن کا بچہ پیدا ہونے والا تھا وہ بھی بروقت ایمبولینس نہ بلا پائے اور انتہائی تکلیف میں حاملہ خاتون کوکئی گھنٹے پیدل چلنا پڑا اس کے نتیجے میں اس جوڑَ ے کو اپنا بچہ کھونا پ؎ڑا۔ رپورٹ میں ایسے کچھ ڈاکٹرز سے بھی بات چیت کی گئی ہے جنہوں نے نام نہ ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ بعض اوقات انہیں ایمرجنسی کیس میں رات کے اندھیرے میں موٹر سائیکل پر سوار ہو کر ہسپتال کے عملے کو گھر سے بلانا پڑا کیونکہ کسی صورت اس عملے سے رابطہ کرنا ممکن نہیں تھا۔ گزشتہ 65 دنوں سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کا بازار گرم ہے۔ میڈیا میں گردش کرنے والی خبروں کے مطابق کشمیر کے مختلف شہروں میں کھدائی کے دوران 55 دیہات سے 2700 قبریں دریافت ہوئی ہیں بھارتی اخبار دی ہندو کی رپورٹ مِیں کہا گیا کہ اجتماعی قبریں بانڈی پورہ، کپواڑہا ور بارہ مولا کے علاقوں سے برآمد ہوئی ہیں 154 قبروں مِیں سے دو جبکہ 23 قبروں میں تین سے سترہ نعشیں برآمد ہوئی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے انسانی حقوق کمیشن نے حکومت سے ڈی اینا ے ٹیسٹوں، کاربن ڈیٹنگ اور دیگر جدید طریقوں کی مدد سے مدفون افراد کی شناخت طے کرنے کا مطالبہ کیاہے مگر حکومت تاحال چپ سادھے ہوئے ہے۔ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیر میں اب تک 8 افراد لاپتہ ہو چکے ہیں۔ ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانی معاشروں میں انسانی حقوق پر سب سے زیادہ توجہ ضروری ہے یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے افسوسناک امر یہ ہے کہ مغربی ممالک نے انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے اپنی مرضی کا ایجنڈا ترتیب دیاہے اگر تشدد کا کوئی پہلو انہیں پنے خلاف محسوسہو تو اس کے لیے ضابطے اور ہیں اگر تشدد کسی اور ریاست میں ہو تو اس کے لیے قاعدے اور ہیں۔ نائن الیون کے حادثہ میں جو ہوا اس رپ افسوس ہے مگر اس افسوس ناک واقعہ کی تحقیق،تفتیش کے بغیر مسلم امہ پر چڑھائی ایک بعد دوسرے ملک پر دھاوا نتیجہ کیا نکلا مذاکرات۔ اگر پہلے دن ہی یہ روش اختیار کی گئی ہوتی تو آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔ مغربی معاشرے میں جو آج انتہا پسندی کا سامنا ہے وہ ان کے ا پنے اعمال کا شاخسانہ ہے۔ اقوام عالم کے سامنے مسلم امہ کے وہ بنیادی مسئلے فلسطین اور کشمیر زیرغور ہیں مگر تاحال ان پر خاموشی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ایک طرف ان کا لے پالک اسرائیل ہے پورا مغربی ڈھانچہ اس کاپشتیبان ہے۔ دوسری جانب بھار ہے جو مغرب کے لیے دنیا کی سب سے بڑی بڑی تجارتی منڈی ہے۔پانچ اگست کوکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ سے تاحال جو کشمیر میں کرفیو جاری ہے۔ 80 لاکھ لوگوں پر نو لاکھ فوج تعینات کی گئی ہے۔ وادی میں مکمل لاک ڈآؤن کی وجہ سے گھروں میں اشیاء خوردونوش ختم ہو چکی ہِں جبکہ بیمار اور بزرگ حضرات ادویات لینے سے قاصر ہِیں کشمیر کی وادی میں زندگی سسک رہی ہے،بلک رہی ہے اور سنسان سڑکوں پر ہر جگہ بھارتی فوجی تعینات ہیں جب کہ کاروباری زندگی بنداور موبائل فون،لینڈ لائن اور انٹرنیٹ سروس تاحال معطل ہیں۔کشمیری عوام گھروں میں محصور ہیں جب کہا سکول، کالجز اور جامعات مکمل طورپر بند ہونے سے بچوں کا مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا ہے اسی طرح مقامی انتظامیہ نے کارگل مِں بھی دفعہ 144 نافذکردی ۔ وہاں بھی مواصلات کے تمام ذرائع معطل ہیں جس کے باعث علاقے کا بیرونیدنیا سے رابطہ منقطع ہے۔جبکہ انٹرنیٹ کی بندش کے باعث اخبارات چار اگست سے اپ ڈیٹ نہِں ہو سکے۔ درحقیقت بھارت نے کشمیریوں کی زندگی حرام کر رکھی ہے۔65 دن سے فاقہ کش کشمیری کرفیو کے نام پر گھروں میں قید ہیں مظلوموں کی اس قدر گرفتاریاں کی گئی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی جیلیں تک بھر گئی ہیں۔ کاروبارزیسٹ ٹھپ ، سیب کے باغ مالکان کی عدم موجودگی کا پتہ دے رہے ہیں۔ کون کس حال میں ہے معلوم نہیں غیر ملکی میڈیا کے ذریعے حالات کی سنگینی کی خبریں موصول ہو رہی ہیں موودی حکومت معاشی بدحالی کی جانب گامزن ہے ۔ مودی حکومت اپنی کارکردگی پر پردہ ڈآلنے کے لیے یقینی طور پر مسلمانوں پرظلم وستم کے پہاڑ گرائے گی یقینا گرائے جا رہے ہیں جولائی میں ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے پہلوخان کے قتل اور اگست میں قاتلوں کی رہائی پر ردعمل دیتے ہوئے درگاہ ا جمیر شریف کے خادم نے مضطرب لہجے میں سوال اٹھایا کہ یہ کیسا بھارت ہے؟ جہاں قاتل آزاد اور مقتول کے غمزدہ لواحقین گرفتار ہو رہے ہیں۔ کیا پہلو خان کو آسمان سے بھوتوں نے آکر قتل کیا تھا؟ جو چھ کے چھ ملزمان کو بری کردیا گیا؟ اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ مقتول کے دونوں بیٹوں کو گائے کی سمگلنگ میں پابند سلاسل کردیا گیا آئے دنا س قسم کے واقعات معمول بننے لگے ہیں۔ کشمیر کے دورے پر گئے غلام نبی آزاد نے میڈیا کو بتایا کہ کشمیر کی صورت حال انتہائی گھبیر اور افسوسناک ہے۔ پاکستان حالات کو معمول پر لانے کے لیے سفارتی محاذ پر کوششیں کررہاہے۔ وزیراعظم کا اقوام متحدہ میں خطاب بین الاقوامی دنیا کے لیے واضح پیغام تھا۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ کرفیو ختم کرے۔ نریندر مودی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے فوجی دستوں میں اضافہ ہو رہاہے۔ مایوسی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیری لانگ مارچ کر رہے ہیں جنہیں آٹھ کلومیٹر پہلے روک لیا گیا ہے راستوں پر کنٹینر لگا کر مقامی پولیس نے راستہ بلاک کردیا ہے۔ وزیراعظم تنبیہہ کر چکے ہیں کہ کوئی بھی شہری لائن آف کنٹرول کو عبور کرنے کی کوشش نہ کرے۔ صورتحال دن بدن نازک ہو تی جا رہی ہے۔ حکومت پاکستانکے پاس آپشن کم ہو رہے ہیں لوگ حکومت سے مایوس ہو رہے ہیں کرفیو ختم کروانے کے لیے حکومت نے کوئی واضح فارمولا پیش نہیں کیا۔ شاہ محمود قریشی نے اپنے انٹرویومیں کہا تھا کہ پلان ظاہر کرنا ضروری نہِیں ہے بات تو جناب کی ٹھیک ہے پر مسئلہ کا حل بھی توہونا چاہیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے مسئلہ توحل نہ ہوگا۔ حکومت وقت کو چاہیے کہب ھارتی عزائم کو موثر سفارتکاری کے تحت بے نقاب کرے۔ دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے ہیڈآف اسٹیٹ کو شامل کرنا چاہیے کہ وہ بھارت پر پریشر بلڈ کریں۔ ایسا کرنے کے لیے بہت زیادہ ورک کی ضرورت ہے حکومت زبانی جمع خرچ کے علاوہ کسی شعبہ میں کچھ زیادہ کامیابی سمیت نہیں پائی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان مذہبی کارڈ استعمال کرنے کے لیے پوری قوت سے میدان میں اترنا چاہتے ہیں مقتدر حکومت کے لیے آزادی مارچ کا مسئلہ ہوگا یا نہیں یہ آنے والے دنوں مین معلوم ہو جائے گا۔ا گر حکومتی مشینری نے تحمل اور حکمت کا مظاہرہ کیا تو دھرنا حکومت کو نقصان نہیں پہنچا پائے گا اگر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جیسا کہ جناب فواد چودھری نے کیا ایک جعلی پمفلٹ کو اپنے اکاؤنٹ سے شیئر کردیا تھا تو یقینا مسائل ہوں گے۔ مِیں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عمران خان حکومت کواپوزیشن سے کوئی بڑامسئلہ نہیں ہے انہیں مسئلہ اپنی مفاد پرست ٹیم سے ہے جن کے پاس نہ تجربہ ہے نہ فہم و شعور اور نہ ہی وہ مسائل سے سرخرو ہو کرنکلنے کا فن جانتے ہیں۔ دھرنا سیاست پی ٹی آئی کا بویا ہوا بیج ہے۔ جسے بخوشی قبول کرنا چاہیے

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں