391

اپنی خودی کی پہچان

انسان چاہے تو کچھ بھی حاصل کر سکتا ہے ،چاہے تو دن رات ایک کر کے اپنی ذات سے بڑھ کر بھی کام کر سکتا ہے ، لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ اسکے لیے اپنے اندر کی خودی کو پہچاننا ضروری ہے۔ جب تک انسان اپنی خودی کی پہچان نہیں کرتا اسے معلوم ہی نہیں ہوتا میں ہوں کیا، میں کون تھا ، میری ابتدا کیسے ہوئی اور میری انتہا کیا ہوگی ، ان باتوں کو بھلا کر کیسے اپنی منزلِ مقصود تک پہچ سکتاہے۔


تحریر:اویس اسلم جہلم

آج ہم دنیا سے پیچھے ہیں ہر حوالے سے ، ایسا کیوں ہے، کیونکہ ہم نے اپنی خودی کو بھولا دیا ہے ہم بھول چکے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں،ہمارا اس دنیامیں آنےکا ایک خاص مقصد تھاجس مقصد کو ہم بھول چکےہیں۔۔۔

آج ہماری جوان نسل کا دن ٹک ٹاک پر ناچ گانے،محبت کے نام پر فلرٹ سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ہی ختم ہوجاتا ہے۔۔۔
مجھےآج بھی سلطان صلاح الدین ایوبی رحمة اللہ علیہ کے وہ الفاظ یاد آتے ہیں جب آپ نے اپنے وزیر کو بولا کہ جا کر یورپ میں اعلان کرا دو آج سے آپکا بادشاہ صلاح الدین ایوبی رحمةاللہ علیہ ہےتو وہ وزیر تعجب کا شکار ہو جاتا ہے اور کہتا ہے اے میرے سلطان! بغیر کسی جنگ کے کسی وارننگ کے ہم کیسے جا کر بول سکتے ہے آج سے یہاں پر ہماری حکومت ہو گئی ہے۔۔۔
تو سلطان صلاح ایوبی رحمةاللہ علیہ نے تاریخی الفاظ ارشاد فرماۓ کہ!
“جس قوم میں فحاشی عام ہو اس قوم پر جیت کے لیے جنگ مُسلّط کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی صرف حکم ہی کافی ہوتاہے”
اس قوم کے دل موم سے بھی نرم ہوجاتے ہیں،انکے ہاتھوں میں جنگ کی طاقت نہیں ہوتی۔

آج ہماری نوجوان نسل بھی فحاشی میں مبتلا ہے اسے اپنے جائز رشتوں،اپنے دینی اقدار و روایات کی تمیز نہیں رہی۔ یہ ہی وجہ ہے آج کشمیر، فلسطین ، برما میں ماوں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں پامال ہو رہی ہیں۔ ہر کونے سے ایک ہی آواز آ رہی ہے، ہےکوئی صلاح الدین ایوبی، ہے کوئی محمد بن قاسم ؟
اس کے جواب میں صرف سناٹا ہی سناٹا ہے کیونکہ ہمارے دشمن نے ہمارا منہ اس طرف موڑ دیا ہے جس طرف ناکامی ہی ناکامی ہے۔

یہ دشمن کی ایک چال ہے جسے منزل مقصود تک پہچانے میں کئی سال لگے باقائدہ گول میز کانفرنس ہوئی اسکے بعد شرم وحیا کے پیکر مسلمان نوجوانوں کو اس گندگی میں مبتلا کیا گیا۔
آج دنیا میں پاکستان فحاشی کی ویب سائٹ روزانہ اوپن کرنے میں دوسرے نمبر پر موجود ہے۔ قصور ہمارا نہیں ہے ہم ایسے نہیں تھے ہمیں ایسا بنایا گیا ہے۔

لیکن پریشان نہیں گبھرانا نہیں ہے کیونکہ ڈاکٹر علامہ اقبال نے خودی کا فلسفہ اسی نوجوان نسل کےلیے بیان کیا ہے،
اگر اس پر عمل کر لیا جائے تو مسلمان نوجوانوں جیسا ساری دنیا میں کوئی نہیں مگر شرط یہ ہے کہ عمل ضروری ہے۔اپنے آپ کو اپنے دنیا میں آنے کے مقصد کو جانیں اور سمجھیں جب ہی ہم دشمن کے ہر وار کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور کامیاب ہوسکتے ہیں۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔۔۔

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں