460

امیر زادیوں کی آزادی….!

امیر زادیوں کی آزادی….!

صائمہ ولایت
تحریر: نامہ نگار صائمہ ولایت 9 نیوز نارووال

کل کے آزادی مارچ کی کچھ تصاویر دیکھیں تو احساس ہوا کے آزادی تو بس امیر زادیاں ہی مانگ رہی ہیں کیوں کہ غریب کی بیٹی تو عزت کی روٹی پہ گزارہ کرنے کو ہی اپنی زندگی سمجھتی ہے۔

اور مجھے سمجھ نہیں آتی ان امیروں سے اپنی بیٹیاں سمبھالی کیوں نہیں جاتی…جہاں دیکھو انہوں نے گند پھیلا رکھا ہے…میری نظر میں قصور بھی ان والدین کا ہی ہے ان بھاٸیوں کا ہی ہے جنہوں نے ساری زندگی ان کی زماداری اٹھانے کی بجاۓ نوکروں کے آسرے پہ چھوڑ رکھا ہوتا ہے…خود گھر میں ہوتے ہوۓ بھی انہیں ڈراٸیورز کے ساتھ باہر بیجھ کہ انہیں محفوظ سمجھتے ہیں.

شرکاء عورت مارچ

اور ایسی ہی عورتوں کو جب آزادی کے نام پہ بے حیاٸ کرتے دیکھ کے روکنے لگتے ہیں تو پھر نکلتی ہیں وہ سڑکوں پہ نام نہاد آزادی کے نعرے لگاتی میرے ملک کی شریف عورتوں کو بدنام کرتی میرے دین کی شہزادیوں کے کرداروں پہ دھبے لگاتی ہوئی ان عورتوں میں سے بہت ساری تو طلاق یافتہ ہوتی ہیں بہت ساری ہم جنس پرست ہاسٹلز کی پیداوار اور بہت ساری گھروں سے بھاگی ہوئی آوارہ چین سموکرز.
اور عجیب اتفاق ہے کہ ویسے تو یہ لبرل آنٹیاں پورا سال کسی غریب کہ پاس بیٹھیں بھی نہ مگر 8 اکتوبر کو انہیں ان کا درد بہت محسوس ہوتا ہے.
ڈالرز کی طاقت کا اندازہ لگائیں ذرا ایک بار میرا عورتوں کے حوالے سے منعقد ایک تقریب میں مقرر کے طور پہ جانا ہوا.اپنی تقریر کے بعد وہاں بیٹھی ایک لڑکی سے میں نے پوچھا آپ کس کے ساتھ آئی ہیں وہ سولہ سال کی لڑکی تھی اور اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی این جی او والی باجی کے ساتھ آئی ہے میں نے اسے پوچھا آپ پڑھتی کیوں نہیں اس بچی نے بتایا کہ این جی او والی باجی کھانا دیتی ہے کام کرواتی ہے مگر پڑھاتی نہیں.
تو میرا سوال یہ ہے کہ اگر اتنا ہی عورت آزادی کا شوق ہے تو اپنے ارد گرد غریب بچیوں کو تعلیم کیوں نہیں دلاتیں انہیں یہ شعور کیوں نہیں دیتیں کہ وہ عزت سے اپنی زندگی گزاریں.

میرے معاشرے کی عورت کو ایسی آزادی تو کبھی بھی نہیں چاہۓ کہ جس میں وہ آدھا لباس پہن کے مردوں میں جا کہ کھڑی ہو جاے اور اپنی تشہیر کرواتی پھرے وہ کبھی بھی گھر کے مردوں کے آگے ڈٹ کے کھڑا ہونا پسند نہیں کرتی وہ کبھی بھی ان کے آگے خود کو بڑھا کر پیش نہیں کرنا چاہتی…وہ تو ان کی عزت اور محبت کی خاطر ہر سرد گرم سہہ جاتی ہے کیوں کہ وہ جانتی ہے کہ اس کے گھر کے یہی مرد ہیں جن کی وجہ سے وہ گھر بیٹھے ہر آسائش اور خوشی کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں…یہی مرد ہیں جو اپنا خون پسینہ ایک کر کے اپنی ساری کمائی عورت کے ہاتھ میں صرف اس کی وفا اور حیا کے صدقے لا کر رکھ دیتا ہے.
سارے مسئلے ساری برائیاں مردوں میں بھی نہیں ہے کچھ چیزیں عورتوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے.
مجھے عورت کے آزادی مانگنے پہ اعتراض نہیں مگر وہ میرے معاشرے کے مردوں کے حق کھانے کی بات کرتی ہیں جو ہمیں منظور نہیں ہے.ان عورتوں کو بڑا شوق ہے آزادی کا تو وہ آزادی مانگیں اپنے آپ سے اپنی سوچ اور اپنے ہاتھوں کی ہوئی ایک بچی کی تربیت سے جسے وہ عورت بننے تک ایک عجوبہ بنا دیتی ہے.آزادی کے نام پہ میرے ملک میرے معاشرے میرے دین کامزاق اڑانا بند کرو.

“آزادی کے نام پہ عجب کھیل رچا رکھا ہے
آزاد رہنے والوں کا بھی جینا عزاب بنا رکھا ہے”

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں