کرونا وائرس ایک وائرل انفیکشن ہے جس کا پہلا کیس دسمبر 2019 میں چین کے شہر دوہان میں رپورٹ ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس انشفیکشن نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا،

اس بیماری نے معاشرہ،جنس،فرقہ،جغرافیہ،مذہب کسی کو بھی نہیں دیکھا اور پوری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور ہمارا طرز زندگی بدل دیا۔ پاکستان میں کرونا کا پہلا کیس فروری 2019 میں رپورٹ ہوا،لیکن حکومت کے بروقت اقدامات اور اللہ کے خاص فضل و کرم سے پاکستان میں کرونا کے مریضوں اور اموات کی شرح پاکستان میں بہت کم رہی اور پاکستان نے اس وباء پر بہت جلد قابو پا لیا،لاک ڈاون ختم کردیا گیا لیکن احتیاط کی ابھی ضرورت تھی جو ہم نے بطور معاشرہ نہیں کی اور دیکھتے ہی دیکھتے کرونا کی دوسری لہر آ گٸی اور کرونا پھر تیزی سے پھیلنے لگا۔کرونا نے کسی جج،ٹیچر،ڈاکٹر،صحافی،طالب علم،عالم کسی کو نہیں چھوڑا اور ہم نے آۓ روز اپنے اردگرد اور اپنی ٹاٸم لائن پر کسی کی موت کی خبر پڑھی یا ٹویٹ کی ۔ کرونا کی دوسری لہر کا وار پہلی لہر سے کہیں زیادہ خطرناک ہے ۔پاکستان میں اتوار 22 نومبر کو 24 گھنٹوں میں کرونا کے 2500 سے زاٸد کیسز رپورٹ ہوۓ اور 34 اموات ہوٸی یہ شرح ہر گزرتے دن کیساتھ بڑھتی جارہی ہے۔پاکستان میں کرونا کے کل مریضوں کی تعداد 3لاکھ 76 ہزار 9سو 29،اموات کی کل تعداد 7 ہزار 6سو چھیانوے ہو گٸی ہے۔ این سی او سی کے مطابق پاکستان میں مثبت کیسز کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے جو 7 فیصد تک بڑھ چکی ہے جس کی وجہ سے ہسپتالوں پر پریشر بڑھ رہا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر حکومتِ پاکستان نے تعلیمی ادارے دوبارہ بند کردیے ہے کیونکہ بچے اور نوجوان اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اب کرونا کے اس ماحول میں بطور پاکستانی شہری اور بطور معاشرے کے فرد ہم سب پر کچھ ذمہ داریاں عاٸد ہوتی ہیں جن ذمہ داریوں کو پورا کر کے ہم سب اس وبا پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس بیماری کا صرف ایک ہی علاج ہے۔ احتیاط،احتیاط اور صرف احتیاط،ماسک پہننا،بار بار صابن سے ہاتھ دھونا،سماجی فاصلہ رکھنا یہ کچھ ایسے عوامل ہے جن پر عمل کر کے ہم کرونا سے محفوظ رہ سکتے ہیں،لیکن افسوس معاشرے میں ابھی بھی کچھ لوگ ایسی ہیں جو اس وائرس کے وجود سے انکاری ہیں، جنہیں ہر مسلے کی طرح یہ مسلہ یہودیوں کی سازش لگتا ہے، جو کرونا کو بھی پولیو کی طرح یہودیوں کی سازش قراردیتے ہیں اور ہمارے یہی معاشرتی رویے ہیں جن کی وجہ سے ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ گٸے ہیں۔ پولیو جس پر پوری دنیا قابو پا چکی ہے لیکن ہم اسے یہودیوں کی سازش کہہ کر بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلاتے اور ابھی تک اس بیماری کا مقابلہ کررہے ہیں، بالکل اسی طرح کرونا وائرس بھی ویکسین کے آنے کے بعد دنیا سے ختم ہو جاۓ گا لیکن ہم اپنے معاشرتی رویوں کی وجہ سے اگلے کئی سالوں تک اس سے لڑتے رہیں گے اور اسکا ذمہ دار بحثیت مجموعی ہمارا معاشرہ ہو گا، جہا ں کچھ لوگ اس بیماری سے پریشان اور اللہ سے توبہ طلب کرتے ہیں وہی کچھ لوگ جن میں اکثریت پڑھے لکھے لوگوں کی ہے اپنی زندگی میں تبدیلی لانے سے گریزاں ہیں . اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو سماجی روابط قاٸم رکھے ہوۓ ہیں،بازاروں میں معمول کا رش ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں جن کیلیے ایس او پیز نام کی کوٸی چیز نہیں اور حکومت عمل کروانے میں ناکام ہے۔ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ یہ واٸرس ہاتھ ملانے سے پھیلتا ہے لیکن ہم سب بھلا جھجک ہاتھ ملاتے ہیں کوٸی ڈر محسوس نہیں کرتے، بلکہ جو احتیاط کرتے ہیں انہیں ڈرپوک اور تم زیادہ حساس ہو جو کرونا تمہیں کاٹ جاۓ گا جیسے القابات سے نوازتے ہیں ۔ کرونا کی وجہ سے دنیا کے سب سے مقدس مقامات بیت اللہ اور مسجد نبوی کیلیے سخت ایش او پیزبناۓ گٸے ہیں لیکن مجال ہے وہاں کے لوگ قوانین کے حوالے سے حکومت کیخلاف بول سکیں اور ہمارے ملک میں جب سب علماء نے متفق ہو کر کرونا کے حوالے سے مساجد کیلیے ایس او پیز بناٸے تو ہم نے بطور معاشرہ دین کو سمجھے بغیر کہ اسلام ہمیں وبا کے حوالے سے کس طرح کی تعلیمات دیتا ہے اپنے ہی علماء پر فتوے لگانے شروع کردیے کہ ہمارے علماء یہودیوں کی سازش کا حصہ بن گٸے ہیں ۔ یہاں اسلامی تاریخ کے ایک اہم واقعے کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔ 18 ہجری کو فلسطین کے ایک شہر میں طاعون کی وبا پھیل گٸی جو دیکھتے ہی دیکھتے شام تک پہنچ گٸی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ جو کہ شام کے سفر پر روانہ تھے نہیں رستے میں طاعون کی وبا کی اطلاع ملی انہوں نے اپنا رستہ بدل لیا اور سفرِ شام کا ارادہ ترک کردیا۔ وہیں شام میں مسلمانوں کی فوج رومیوں کیخلاف جہاد کررہی تھی فوج کی کمان سنبھالنے والے دو صحابہ طاعون سے شہید ہو گٸے انکی شہادت کے بعد جب حضرت عمر بن العاس نے فوج کی کمان سنبھالی تو لوگوں کو منتشر ہونے اور ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ رکھنے کی تلیقین کی تب کہیں جا کر شام میں طاعون کی وبا پر قابو پایا جا سکا ۔ اسی طرح بارشوں اور سیلاب کی صورت میں “الصلوة فی بیوتکم ” یعنی گھروں پر نماز قاٸم کرو ہماری اذان کا حصہ رہا۔ یہ وبا سے نمنٹے، سماجی فاصلے کی اسلامی تاریخ میں چند ایک مثالیں ہیں جن پر ہمیں عمل کرنا چاہیے نا کہ اسے یہودیوں کی سازش قراردیا جاۓ۔ معاشرہ انسانوں سے ملکر بنتا ہے اور وہ انسان میں،آپ اور ہم سب ہیں اگر ہم معاشرے کے رویوں میں مثبت تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں اسکا آغاز اپنی ذات س کرنا ہو گا۔ ہمیں خود بھی ماسک کا استعمال لازمی کرنا ہو گا اور دوسروں کو بھی اسکی تلقین کرنی ہوگی۔بلاضرورت گھروں سے باہر نکلنے سے پرہیز کرنا ہو گا اور اپنے بزرگوں کو باہر نکلنے سے روکنا ہو گا تا کہ وہ اس وبا سے محفوظ رہ سکیں۔ ہمیں اپنے گھر والوں، رشتہ داروں ، دوست احباب اور اپنے ارگرد لوگوں کو بار بار صابن سے ہاتھ دھونے کی تلقین کرنی ہو گی۔ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے سب کو منع کرنا اور سماجی فاصلے کے بارے میں بتانا ہو گا۔ یہ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن پر ہمیں بطور معاشرے کا حصہ عمل کرنا ہے ان سب کے بدلے میں 90% کا جواب نہیں ہو گا لیکن ہمیں بار بار کوشش کرنی ہے اور ایسی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے معاشرے میں مثبت تبدیلی کا آغاز کرنا ہے۔ گورنمنٹ ک طرف سے وضع کردہ ایس او پیز پر عمل کرنا بطور معاشرہ اور بطور شہری ہماری اہم ترین ذمہ داری ہے، ہمارا معاشرتی رویہ ہی ہے جس کی بدولت ہم اس واٸرس کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاٸیں گے ، ان شاء اللہ یہاں احمد فراز کا ایک خوبصورت مصرہ یاد آ گیا شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا تم بھی اپنے حصے کی شمع جلاۓ جاتے اللہ ہمارے پیارے وطن پاکستان، عالم اسلام اور پوری دنیا کو اس مہلک بیماری سے محفوظ رکھے،آمین