مہمان کالم: حافظ شاھد محمود
کامونکی
اللہ تعالیٰ کی پُر رحمت ساعتوں کے سمندر رمضان المبارک کی آمد آمد ہے
رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امید ، رحمت و مسرت کیساتھ بہت بڑا انعام ہے، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو زندگی میں بار بار رمضان المبارک کو پاکر اللہ تعالیٰ کو مناتے ہوۓ بھرپور فوائد حاصل کرتے ہیں۔ آپ نظر اٹھائیں کتنے وہ لوگ تھے جو پچھلے رمضان المبارک سحر و افطار میں ہمارے ساتھ تھے ۔ لیکن اب نظر نہیں آ رہے (اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرمائے )
رمضان المبارک کی اہمیت کا اندازہ آپ اس حدیث نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ
أَنَّ رَجُلَيْنِ مِنْ بَلِيٍّ قَدِمَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ إِسْلَامُهُمَا جَمِيعًا، فَكَانَ أَحَدُهُمَا أَشَدَّ اجْتِهَادًا مِنَ الْآخَرِ، فَغَزَا الْمُجْتَهِدُ مِنْهُمَا فَاسْتُشْهِدَ، ثُمَّ مَكَثَ الْآخَرُ بَعْدَهُ سَنَةً ثُمَّ تُوُفِّيَ، قَالَ طَلْحَةُ: فَرَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ بَيْنَا أَنَا عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ، إِذَا أَنَا بِهِمَا فَخَرَجَ خَارِجٌ مِنَ الْجَنَّةِ، فَأَذِنَ لِلَّذِي تُوُفِّيَ الْآخِرَ مِنْهُمَا، ثُمَّ خَرَجَ فَأَذِنَ لِلَّذِي اسْتُشْهِدَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَيَّ، فَقَالَ: ارْجِعْ فَإِنَّكَ لَمْ يَأْنِ لَكَ بَعْدُ، فَأَصْبَحَ طَلْحَةُ يُحَدِّثُ بِهِ النَّاسَ فَعَجِبُوا لِذَلِكَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَدَّثُوهُ الْحَدِيثَ، فَقَالَ: مِنْ أَيِّ ذَلِكَ تَعْجَبُونَ ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا كَانَ أَشَدَّ الرَّجُلَيْنِ اجْتِهَادًا ثُمَّ اسْتُشْهِدَ، وَدَخَلَ هَذَا الْآخِرُ الْجَنَّةَ قَبْلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَيْسَ قَدْ مَكَثَ هَذَا بَعْدَهُ سَنَةً ، قَالُوا: بَلَى، قَالَ: وَأَدْرَكَ رَمَضَانَ، فَصَامَ وَصَلَّى كَذَا وَكَذَا مِنْ سَجْدَةٍ فِي السَّنَةِ ، قَالُوا: بَلَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَمَا بَيْنَهُمَا أَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ .
دور دراز کے دو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، وہ دونوں ایک ساتھ اسلام لائے تھے، ان میں ایک دوسرے کی نسبت بہت ہی محنتی تھا، تو محنتی نے جہاد کیا اور شہید ہو گیا، پھر دوسرا شخص اس کے ایک سال بعد تک زندہ رہا، اس کے بعد وہ بھی مر گیا، طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوں، اتنے میں وہ دونوں شخص نظر آئے اور جنت کے اندر سے ایک شخص نکلا، اور اس شخص کو اندر جانے کی اجازت دی جس کا انتقال آخر میں ہوا تھا، پھر دوسری بار نکلا، اور اس کو اجازت دی جو شہید کر دیا گیا تھا، اس کے بعد اس شخص نے میرے پاس آ کر کہا: تم واپس چلے جاؤ، ابھی تمہارا وقت نہیں آیا، صبح اٹھ کر طلحہ رضی اللہ عنہ لوگوں سے خواب بیان کرنے لگے تو لوگوں نے بڑی حیرت ظاہر کی، پھر خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی، اور لوگوں نے یہ سارا قصہ اور واقعہ آپ سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کس بات پر تعجب ہے ؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! پہلا شخص نہایت عبادت گزار تھا، پھر وہ شہید بھی کر دیا گیا، اور یہ دوسرا اس سے پہلے جنت میں داخل کیا گیا! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ اس کے بعد ایک سال مزید زندہ نہیں رہا؟ ، لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں، ضرور زندہ رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک سال میں تو اس نے رمضان کا مہینہ پایا، روزے رکھے، اور نماز بھی پڑھی اور اتنے سجدے کئے، کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ تو ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اسی وجہ سے ان دونوں ( کے درجوں ) میں زمین و آسمان کے فاصلہ سے بھی زیادہ دوری ہے۔
سنن ابن ماجہ حدیث نمبر#3925
ھم سب کو شکر ادا کرنا ہے کہ ہمیں زندگی میں ایک بار پھر یہ مبارک مہینہ عطا فرمایا ۔
رمضان المبارک میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔ جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں ۔ شیطان جھکڑ لیے جاتے ہیں ۔
آپﷺ نے فرمایا: ’’جب رمضان المبارک آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، بھڑکتی آگ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔‘‘
سنن نسائی حدیث نمبر#2106
مغفرت کیساتھ مسلمانوں کی دعائیں بھی قبول کی جاتی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ، صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَاب، وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَاب، وَيُنَادِي مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اور سرکش جن جکڑ دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، پکارنے والا پکارتا ہے: خیر کے طلب گار! آگے بڑھ، اور شر کے طلب گار! رک جا اور آگ سے اللہﷻ کے بہت سے آزاد کئے ہوئے بندے ہیں ( تو ہو سکتا ہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو ) اور ایسا ( رمضان کی ) ہر رات کو ہوتا ہے۔(جامع ترمذی حدیث نمبر#682)
رمضان المبارک کو باعث غنیمت جانتے ہوئے اسکا استقبال توبہ کیساتھ کرنا چاہیے ۔ کیونکہ ہر طرف افراتفری کا عالم ہے ۔ کورونا وائرس نے تباہی مچا رکھی ہے ۔ ہمیں تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے گناہوں سے تائب ہونا ہے ۔ کیونکہ یہ توبہ کا مہینہ ہے ہم نیت باندھ لیں کہ اس رمضان المبارک لاک ڈاؤن کا بھرپور فائدہ حاصل کرتے ہوئے نماز ، روزہ ،تلاوت قرآن ، دعا ، اذکار اور سحری وافطاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے ۔
رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے ۔ ہمیں ایک دوسرے پر نیکیوں میں سبقت حاصل کرنی ہے ۔ ناکہ ہم روائتی انداز سے اس دفعہ بھی فضولیات میں وقت برباد کرکے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنیں ۔
حقیقت میں رمضان المبارک ہمارا امتحان لیتا ہے ۔ اس میں کچھ لوگ کامیاب اور کچھ ناکام ہو جاتے ہیں ۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ رمضان المبارک ہماری زندگی کا آخری رمضان ہو ہمیں ناراضگیاں دور کر کے تقویٰ اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں ، برکتوں کو سمیٹنے کی بھرپور کوشش کرنی ہے
ان شاءاللہﷻ۔