وہ دن جب حرمِ کعبہ کی فضائیں آہوں اور سسکیوں سے گونج اٹھیں

مکہ مکرمہ — 11 ستمبر 2015ء کی سہ پہر، جب دنیا بھر سے آئے لاکھوں فرزندانِ توحید مسجد الحرام میں عبادت میں مصروف تھے، بیت اللہ کے صحن میں اچانک قیامت کا سماں برپا ہوگیا۔
طواف، دعا اور ذکر الٰہی کی پرسکون صدائیں پلک جھپکتے میں چیخ و پکار اور رونے کی آوازوں میں بدل گئیں۔

شدید آندھی اور طوفانی بارش کے دوران تعمیراتی کاموں کے لیے نصب بھاری کرین گر گئی۔ لمحوں میں ہر طرف ملبہ، زخمیوں کی آہیں اور شہداء کے بے جان جسم بکھر گئے۔
اس اندوہناک حادثے میں 111 زائرین شہید اور 394 شدید زخمی ہوئے۔ شہداء میں ایسے والدین بھی تھے جو اپنے بچوں کے ہمراہ حج کی سعادت کے لیے آئے تھے،
بیٹے جو اپنی ماؤں کے ہاتھ پکڑ کر بیت اللہ تک پہنچے تھے، اور کچھ ایسے خوش نصیب بھی جنہوں نے تنہا اس سفر کا آغاز کیا تھا اور حرمِ کعبہ میں اپنی جان، شہادت کے تاج کے ساتھ اللہ کو لوٹا دی۔
حادثے کے فوراً بعد مسجد الحرام کی فضا میں آہوں اور سسکیوں کا طوفان تھا۔ ریسکیو اہلکار زخمیوں کو خون آلود حالت میں اٹھا اٹھا کر اسپتال منتقل کر رہے تھے، اور بیت اللہ کے گرد موجود ہر آنکھ اشکبار تھی۔
یہ سانحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ موت مقدس ترین مقام پر بھی آ سکتی ہے۔ زندگی کی ہر سانس غیر یقینی ہے، اور ہر لمحہ ہمیں اس دن کے لیے تیار رہنا چاہیے جب ہمیں اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے۔
کرین حادثہ اس بات کا پیغام بھی دیتا ہے کہ بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی اور تعمیراتی کاموں کے دوران سخت ترین حفاظتی اقدامات نہایت ضروری ہیں تاکہ ایسے دل دہلا دینے والے سانحات سے بچا جا سکے۔