155

افغانستان کا دریائے کنڑ پر ڈیم: حقیقت یا سیاسی نعرہ

افغانستان کا دریائے کنڑ پر ڈیم: حقیقت یا سیاسی نعرہ؟

حالیہ دنوں میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ افغانستان، بھارت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے، پاکستان کا پانی روکنے کے لیے دریائے کنڑ پر ڈیم تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

Rahim khattak crime reporter
رحیم خٹک: چیف ایڈیٹر

بظاہر یہ معاملہ سیاسی نعرے بازی اور علاقائی دباؤ کا حصہ دکھائی دیتا ہے، لیکن اس کے پسِ منظر میں موجود حقائق کہیں زیادہ پیچیدہ اور فنی نوعیت کے ہیں۔

دریائے چترال

سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دریائے کنڑ دراصل پاکستان کے ضلع چترال سے نکلنے والے دریائے چترال (جسے دریائے کابل بھی کہا جاتا ہے) کی ایک شاخ ہے۔

یہ دریا افغانستان میں داخل ہو کر دریائے کابل سے ملتا ہے اور پھر دوبارہ پاکستان میں داخل ہو کر دریائے سندھ کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک مشترکہ آبی نظام (Shared River System) ہے،جس کے ماحولیاتی، زرعی اور معاشی اثرات دونوں ممالک پر براہِ راست پڑتے ہیں۔

دریائے کابل

اگر افغانستان واقعی دریائے کنڑ پر ڈیم تعمیر کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو اس سے اسے توانائی کے حصول اور آبپاشی کے فوائد ضرور حاصل ہو سکتے ہیں۔

تاہم، اس نوعیت کے منصوبے کے لیے اربوں ڈالر کی لاگت، اعلیٰ انجینئرنگ مہارت، عالمی مالیاتی اداروں کی منظوری اور کئی سالوں پر محیط تعمیراتی عمل درکار ہوگا۔

موجودہ طالبان حکومت کے پاس نہ تو مطلوبہ مالی وسائل موجود ہیں، نہ بین الاقوامی سرمایہ کاری کی حمایت، اور نہ ہی وہ تکنیکی استعداد جو کسی بڑے ہائیڈرو پاور منصوبے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔

دریائے کابل

دوسری جانب، اگر طالبان حکومت سیاسی مقاصد یا بھارتی اثرورسوخ کے تحت اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتی ہے تو اس کے خطے پر سنگین ماحولیاتی اور تزویراتی اثرات مرتب ہوں گے۔

پاکستان اگر جوابی طور پر چترال کے منبع پر پانی کے بہاؤ کا رخ انجینئرنگ کے ذریعے تبدیل کرے تو اس کے نتیجے میں افغانستان کے مشرقی صوبے—خصوصاً کنڑ، ننگرہار، لغمان اور کابل—شدید خشک سالی، زرعی تباہی اور قحط کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ان علاقوں کی معیشت بڑی حد تک اسی دریا کے پانی پر انحصار کرتی ہے، لہٰذا پانی کی قلت ان کے لیے سنگین معاشی و انسانی بحران پیدا کر سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق طالبان حکومت کے یہ بیانات زیادہ تر سیاسی نوعیت کے ہیں، جن میں زمینی حقائق اور تکنیکی امکانات کو کم ہی مدنظر رکھا گیا ہے۔

بھارت نے ماضی میں افغانستان کے ساتھ کئی چھوٹے آبی منصوبوں میں تعاون کیا ہے، جیسے سلما ڈیم (جسے “انڈو-افغان فرینڈشپ ڈیم” کہا جاتا ہے)، لیکن کنڑ جیسا بڑا منصوبہ بھارت کے لیے بھی ایک جغرافیائی اور سیاسی چیلنج ہوگا، کیونکہ اس کے اثرات پورے خطے کے آبی توازن (Hydro Balance) پر پڑیں گے۔

اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ افغانستان اور پاکستان پانی کے مسئلے کو سیاسی کشیدگی کے بجائے سفارتی مذاکرات، مشترکہ آبی انتظام (Joint Water Management) اور علاقائی آبی معاہدوں (Regional Water Agreements) کے ذریعے حل کریں۔

اگر دونوں ممالک باہمی تعاون کو ترجیح دیں تو یہی دریا توانائی، زرعی ترقی اور ماحولیاتی استحکام کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر، پانی کا یہ تنازعہ مستقبل میں خطے میں نئی نوعیت کی کشیدگی اور ممکنہ تنازعات کو جنم دے سکتا ہے۔

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں